مصری لڑاکا طیاروں کی لیبیا میں مسلمان شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں
16 اکتوبر 2014خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان حملوں سے لیبیا میں بڑھتی ہوئی مصری مداخلت واضح ہوتی ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ لیبیا کے مشرقی شہر بن غازی کے زیادہ تر حصے پر انصار الشریعہ اور دیگر مسلمان شدت پسندوں کا قبضہ ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے دو اعلیٰ مصری عہدیداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملے اسلام پسندوں کے خلاف اس مصری مہم کا حصہ ہیں، جس میں مصر لیبیا کے فوجی دستوں کو شدت پسندوں کے خلاف لڑائی کے لیے تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔ لیبیا کے یہ فوجی جلد ہی اسلام پسندوں کے خلاف زمینی کارروائیوں کا آغاز کرنے والے ہیں۔
ان مصری عہدیداروں نے بتایا کہ یہ آپریشن لیبیا کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ انتظامیہ کی درخواست پر کیا گیا۔ یہ بات اہم ہے کہ لیبیا کی مسلمہ حکومت دارالحکومت طرابلس سے بے دخل ہو کر مشرقی شہر تبروک میں بیٹھی ہے، جب کہ طرابلس پر اسلامی شدت پسند ملیشیا گروہوں کا قبضہ ہے۔
ایک مصری عہدیدار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’یہ لڑائی لیبیا کے لیے نہیں، مصر کے لیے ہے۔ مصر خطے کا وہ پہلا ملک تھا، جس نے دہشت گردی کے خطرے سے خبردار کیا تھا اور وہ اس جنگ میں شامل ہونے والا بھی پہلا ملک ہے۔‘‘
ان مصری عہدیداروں نے بتایا کہ یہ آپریشن تین سے چھ ماہ تک جاری رہے گا، جس میں مصری بحریہ کا ایک جہاز تبروک شہر کے قریب بحیرہء روم میں موجود رہے گا اور کمانڈ سینٹر کا کردار ادا کرے گا۔ ان عہدیداروں نے بتایا کہ مصر، بن غازی میں اسلام پسندوں کے خلاف اعلان جنگ کرنے والے سابقہ جنرل خليفہ حفتر سے اس سلسلے میں رابطے کی بجائے براہ راست لیبیا کی جائز حکومت سے بات کر رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ لیبیا کے نئے فوجی سربراہ حالیہ ہفتوں میں کئی مرتبہ مصر کا دورہ کر چکے ہیں۔
دوسری جانب حفتر نے بھی اپنے ایک ٹی وی بیان میں کہا ہے کہ وہ استعفیٰ دے کر اختیارات نئی فوجی قیادت کو سونپنے والے ہیں۔ حفتر لیبیا کی فوج کے سربراہ تھے، تاہم سن 2014ء میں ملکی پارلیمان کی جانب سے عہدہ چھوڑنے کی ہدایات کو قبول نہ کرتے ہوئے انہوں نے بن غازی شہر میں ڈیرے ڈال لیے تھے۔ اب موجودہ حکومت اور پارلیمان کے ساتھ ان کے تعلقات ایک مرتبہ پھر بہتر ہو گئے ہیں اور ان کے حامی فوجی بن غازی میں ملکی فوج کے ساتھ مل کر مسلمان شدت پسندوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔