معمر قذافی کا زوال: اوباما کی کیمرون اور سارکوزی پر تنقید
11 مارچ 2016واشنگٹن سے جمعہ گیارہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر اوباما نے یہ بات جریدے ’دا اٹلانٹک‘ کے ساتھ اپنے ایک تفصیلی انٹرویو میں کہی ہے۔
اس انٹرویو میں اوباما نے، جو اس وقت بھی امریکا کے صدر تھے جب معمر قذافی کے دور اقتدار کے خاتمے سے کچھ ہی پہلے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے لیبیا میں فوجی مداخلت کی تھی، کہا کہ اس مشن کے حوالے سے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنی ’توجہ مرکوز نہیں کر سکے تھے‘ جبکہ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی کی کوشش تھی کہ کسی طرح فرانس کی تشہیر کی جائے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ The Atlantic کے ساتھ اس انٹرویو میں باراک اوباما نے اس موضوع پر تفصیلی اظہار رائے کیا کہ معمر قذافی کے طویل دور اقتدار کا خاتمہ کن حالات میں ہوا اور لیبیا میں نیٹو کی فضائی بمباری میں برطانیہ اور فرانس نے اپنی شمولیت کے فیصلے کن حالات میں کیے۔
لیکن بہت اہم بات یہ بھی ہے کہ اسی اظہار رائے کے دوران امریکی صدر نے واشنگٹن کے قریب ترین اتحادی ملکوں کے رہنماؤں پر غیر معمولی تنقید کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ عام طور پر امریکا اور اس کے اتحادی ملکوں کے مابین قیادت کی اعلیٰ ترین سطح پر ایسی تنقید دیکھنے یا سننے میں نہیں آتی۔
اس سوال کے جواب میں کہ لیبیا میں یا لیبیا کے حوالے سے غلطی کہاں پر ہوئی، باراک اوباما نے کہا، ’’تنقید کی جگہ تو موجود ہے۔ اس لیے کہ لیبیا کے بارے میں اس ملک سے جغرافیائی طور پر قریب ہونے کے باعث مجھے یورپی ملکوں پر بہت اعتماد تھا۔‘‘
امریکی صدر نے کہا، ’’لیبیا میں فوجی آپریشن کے فوراﹰ بعد ڈیوڈ کیمرون نے اس طرف توجہ دینا بند کر دی تھی، ان کا دھیان بٹ کر کئی دوسری باتوں کی طرف لگ گیا تھا۔‘‘ فرانس کے کردار کے بارے میں صدر اوباما نے کہا، ’’اس فضائی مہم کے دوران صدر سارکوزی فرانسیسی طیاروں کی پروازوں کا ڈھول پیٹنا چاہتے تھے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تب تک ہم نے لیبیا کے پورے فضائی دفاعی نظام کا صفایا کر دیا تھا اور اس آپریشن کے لیے ہر طرح کا انفراسٹرکچر بھی مہیا کر چکے تھے۔‘‘
لیبیا میں قذافی کے دور اقتدار کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک نہ صرف خانہ جنگی کی طرح کی صورت حال کا شکار رہا ہے بلکہ اسے ابھی تک انتشار کا سامنا ہے۔ اس ملک پر اس وقت متحارب ملیشیا گروپوں کی حکمرانی ہے، جن کی اقتدار کے لیے باہمی جنگ ابھی تک ختم نہیں ہوئی جبکہ شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قابض عسکریت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ بھی اب تک اس ملک میں کافی اثر و رسوخ حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔