ملک شام، جو بچوں کا ’مقتل‘ بن گیا
13 مارچ 2019یونیسف کی اپیل شام کے متحارب فریقوں، ہمسایہ ممالک (اردن، مصر، عراق، لبنان اور ترکی)، ہنگامی اور طویل المدتی انسانی امداد فراہم کرنے والی تنظیموں اور حکومتوں کو متنبہ کرتی ہے کہ شام کے بچے پہلے سے زیادہ مشکل صورت حال کا شکار ہیں۔ 2018 اس حوالے سے بدترین سال تھا کہ جب 1106 بچے جنگ کا ایندھن بن گئے۔ یونیسف کا کہنا ہے کہ یہ صرف ان بچوں کی تعداد ہے جن کی ہلاکت کی تصدیق اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کر پائے ہیں ورنہ حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
’محبت اور رواداری‘ایک ناقابل یقین شامی داستان
شامی بچوں کی ایک پوری نسل معذور
2018 میں تعلیمی اداروں اور صحت کے مراکز پر 262 حملے ہوئے جو اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ شام کے لیے یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینریٹا فورے کے مطابق، ’بارودی سرنگوں کے پھٹنے سے گزشتہ برس 434 بچے ہلاک اور شدید زخمی ہوئے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں شمال مغربی شام میں تقریبا 59 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف شام کے شمال مشرق میں واقع الہول کیمپ میں 65000 لوگ موجود ہیں جن میں 240 لاوارث بچے ہیں۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران، باغوز سے کیمپ تک 300 کلومیٹر کا سفر کرتے ہوئے 60 بچے ہلاک ہو گئے۔‘ رپورٹ کے مطابق، 26لاکھ شامی ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین ہیں جو اتنی بڑی آبادی کو رہائش، تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے قاصر ہیں لہذا چائلڈ لیبر، جنسی استحصال، اغوا اور نوعمری میں شادی جیسے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔
یونیسف نے ڈونر کانفرنس سے اپیل کی ہے کہ بچوں کے مفادات کو ترجیح دی جائے اور ان کی مناسب دیکھ بھال اور حفاظت کرتے ہوئے یہ مت دیکھا جائے کہ ان کا خاندان کس فریق سے تعلق رکھتا ہے۔ شام کے مصیبت زدہ خاندانوں اور ان کے بچوں کی ہنگامی اور طویل المدتی امداد اور بحالی کے لیے موجودہ سطح سے کہیں زیادہ مالی وسائل درکار ہوں گے۔
شام کی جنگ دراصل بچوں کے خلاف لڑی گئی ہے
مزکورہ بالا رپورٹ جاری کرنے والے، یونیسف کے دفتر برائے یورپی یونین کو ڈی ڈبلیو اردو نے چند سوالات ارسال کیے جن کے تحریری جواب کا خلاصہ درج زیل ہے۔
ڈی ڈبلیو: کیا شام کی جنگ کے متحارب فریقین، ہمسایہ ممالک اور مغربی ممالک شامی بچوں کی صورت حال کا ادراک رکھتے ہیں؟
یونیسف: حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ سے شام کا ہر بچہ متاثر ہوا ہے۔ ادراک سب کو ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیسے نکالا جائے۔ شام میں 57 لاکھ بچوں اور 70 لاکھ بالغ افراد کو فوری امداد درکار ہے اور یہ کام ہنگامی بنیادوں اور اجتماعی طور پر ہونا چاہیے۔ بچوں کی ایک غالب تعداد ذہنی صدمے سے دوچار ہے جس کے دور رس اور مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔ یونیسف اور اس کی ساتھی تنظیموں نے شام کے 377000 بچوں کو نفسیاتی علاج کی مدد فراہم کی ہے لیکن بحران بہت بڑا ہے۔ اسی طرح تحفظ اطفال پروگرام میں بارودی سرنگوں سے متاثرہ بچوں کی مدد اور اس حوالے سے دیگر بچوں کی تعلیم و تربیت کو ترجیح دی گئی جس سے 1,168,000 بچوں کو فائدہ ہوا۔ شامی پناہ گزینوں کے مہمان ممالک میں بھی بچوں پر تشدد، جنسی استحصال، چائلڈ لیبر، نو عمری کی شادیوں وغیرہ جیسے مسائل کے حوالے سے کام کیا گیا جس سے 381000 بچوں کو فائدہ ہوا۔ اسی طرح 68000 بچوں کو خصوصی نگہداشت فراہم کی گئی۔
ڈی ڈبلیو: حقوق طفلاں کا اعلامیہ جنگ زدہ بچوں کے حوالے سے کیا کہتا ہے؟
یونیسیف: 1989 میں جب یہ اعلامیہ منظور کیا گیا تو اس کا مقصد یہی تھا کہ بچوں کے مفادات پر کسی بھی صورت حال میں سمجھوتا نہیں کیا جائے گا۔ بدقسمتی سے آج ان قوانین اور اقدار کو مضبوط کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ شام کی جنگ کا ہر فریق بچوں کے حقوق کی سنگین پامالیوں کا مرتکب ہوا ہے۔ درحقیقت یہ جنگ بچوں کے خلاف لڑی گئی ہے۔ ان آٹھ برسوں کے دوران ہر لمحہ بچے کے حق تحفظ کو پامال کیا گیا ہے۔ کچھ اس جنگ کے فریق ہیں، کچھ بلواسطہ طور پر کسی فریق کو مدد اور حمایت فراہم کررہے ہیں اور کچھ دور کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں، تو شام کے بچوں کے مجرم ہم سب ہیں۔ ہم سب ان قدروں، اصولوں اور قوانین کی پامالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں جن پر غیر مشروط عمل درآمد معاشروں، حکومتوں، ریاستوں اور عالمی برادری پر لازم ہے۔
ڈی ڈبلیو: سینکڑوں شامی بچوں کی گمشدگی کے بارے میں یونیسف کا موقف کیا ہے؟
یونیسیف: اقوام متحدہ کے مرتب کردہ اعداد و شمار سے تصدیق ہوتی ہے کہ 2013 سے 2018 تک شام کے 693بچے اغوا ہوئے ہیں جو ابھی تک لاپتا ہیں۔ جنگ میں فریقین ایک دوسرے کے بچوں کو اغوا کر کے شدید تشدد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیشتر اوقات بچوں کا اغوا دیگر انسانی حقوق کی پامالیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ ان بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات زبردستی جنگوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ یونیسف اپیل کرتا ہے کہ ان بچوں کی فوری رہائی، والدین سے ملاپ، نفسیاتی اور جسمانی بحالی ہونی چاہیے۔
شامی بچوں کا المیہ ناقابل بیان ہے
برسلز میں جاری عالمی ڈونر کانفرنس میں شریک، بچوں کے تحفظ کے لیے سرگرم شامی تنظیم سے وابستہ، ریاض نجم نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی ایک بڑی تعداد ذہنی مسائل کا شکار ہو چکی ہے خصوصا بے گھری اور پناہ گزینی کا شکار ہونے والے بچوں کا المیہ ناقابل بیان ہے۔ لاکھوں بچے تعلیم کے حق سے محروم ہیں اور جنگ نے ان کے دل و دماغ میں گہرا خوف پیدا کر دیا ہے۔ یہ بچے اپنے والدین یا دیگر اہل خانہ سے دوری کا کرب سہہ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر، شہر ، گاؤں اور اسکول تباہ ہوتے دیکھے ہیں۔ یہ بچے ناامیدی اور یاسیت کا شکار ہو چکے ہیں، کچھ بے خوابی کا شکار ہیں، کچھ اچانک چیخنے لگتے ہیں اور کچھ بالکل خاموش ہو چکے ہیں۔ جنگ زدہ علاقوں اور کیمپوں میں بچوں کے جنسی استحصال کا مسئلہ بہت سنگین ہے۔
معروف عالمی تنظیم کاریتاس جرمنی کے فونسوا لانج کا کہنا تھا کہ شام کی ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد آبادی کو مہاجرت اور بے گھری کا سامنا ہے۔ یہ لوگ بہت بری صورت حال میں، سہولیات سے محروم پلاسٹک کی خیمہ بستیوں میں رہ رہے ہیں۔ شام کے بچے امید کھو چکے ہیں۔ اسکول ہوں یا کھیل کے میدان، سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔ بہت سے بچے دوران پیدائش یا نہایت کم عمری میں مر جاتے ہیں کیونکہ تربیت یافتہ دائیوں، صفائی ستھرائی اور بنیادی ادویات جیسی سہولیات میسر نہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کھانے کو خوراک ہی نہیں۔