ممبئی حملے، بھارتی عوام کی موجودہ سوچ
26 نومبر 2009ان دہشت گردانہ حملوں کا دھچکہ ابھی تک بہت شديد ہے اور بہت سے بھارتيوں کو يہ سمجھنے ميں مشکل پيش آ رہی ہے کہ وہ دہشت گردی کے سامنے کس قدر بےبس ہيں۔
ممبئی کے حملوں نے پوری بھارتی قوم کے دل پرکاری ضرب لگائی۔ ممبئی کو جديد بھارت کی روح سمجھا جاتا ہے۔ اس شہر نے ہميشہ ہی فخر کے ساتھ سيلابوں اور طغيانيوں جيسی قدرتی آفات کا مقابلہ کيا ہے۔ ممبئی نے سن 1990کے عشرے ميں مذہبی تشدد کی ہنگامہ آرائيوں کو بھی برداشت کيا ہے۔ يہی وہ قوت برداشت اور ايک بڑے خطرے کے مقابلے کے لئے اجتماعی احساس ہے، جس کا حوالہ بھارت کے بہت سے ٹيليوژن چينلز ممبئی حملوں کے ايک سال مکمل ہونے کے موقعے پراپنے خصوصی اور بہت جذباتی پروگراموں ميں دے رہے ہيں۔
ماہر نفسيات سنجے کے خيال ميں بھارتی حکومت کو بھی اقدامات کرنا چاہئيں۔ وہی، اپنے عوام کو تحفظ اور سلامتی کا وہ احساس دوبارہ دے سکتی ہے جو چھن گيا ہے۔ سنجے نے کہا: ’’ لوگوں کو جس نفسياتی دباؤ کا سامنا ہے، اس ميں بھارت کی حکومت صرف اسی طرح کمی کرسکتی ہے کہ وہ انہيں ان اقدامات کے بارے ميں بتائے، جو اس نے مستقبل ميں اس قسم کے حملوں کو روکنے کے لئے کئے ہيں۔ شہريوں کو يہ اچھی طرح بتايا جانا چاہئے کہ ہر ممکن حفاظتی اقدامات کئے جا چکے ہيں۔ سب کچھ بند دروازوں کے پيچھے کئے جانے سے لوگوں ميں خوف اور اپنی سلامتی کے چھن جانے کا احساس پيدا ہوتا ہے اور پہلے ہی کی طرح ان ميں بے يقينی اور عدم تحفظ کا احساس باقی رہتا ہے۔ خاص طور پر جب بھارت ميں کوئی تہوار ہوتا ہے اور لوگ خوشياں منانے کے لئے اکٹھے ہوتے ہيں يا خريداری کے لئے جاتے ہيں تو ايسی تمام جگہوں پر لوگوں ميں خوف پايا جاتا ہے جہاں انسان بڑی تعداد ميں جمع ہوتے ہيں۔‘‘
بھارت میں ممتاز سياسی جماعتيں ممبئی دہشت گردی کے ايک سال پورے ہونے کے موقے پر کسی دنوں سے آپس ميں الجھ رہی ہيں۔ خاص طور پر اپوزيشن، وزير اعظم منموہن سنگھ کی حکومت پر بقول اس کے، کچھ نہ کرنے کا الزام لگانے کے موقعے سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ شاہد صديقی باہو جان سماج پارٹی کے جنرل سيکريٹری ہيں جونچلی ذات یا اچھوتوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتی ہے۔ ان کی پارٹی شمالی بھارت ميں بہت مقبول ہے۔
انہوں نے کہا: ’’ممبئی کے حملوں نے ہميں ايک سبق سکھايا ہے۔ آزادی کے بعد سے 26نومبر سن 2008ء کے حملوں کی طرح کا کوئی حملہ نہيں ہوا تھا۔ اس قسم کے خطرے پر کيا ردعمل ہونا چاہئے؟ کن اقامات کی ضرورت ہے؟
’’يقيناً بھارتی حکومت نے اس کے مقابلے کے لئے اقدامات کئے ہيں ليکن يہ کافی نہيں ہيں۔‘‘
حکمران کانگريس پارٹی کے ستياوات چتر ويدی کا کہنا ہے کہ حکومت، ممبئی کے حملوں کے بعد کے ايک سال کے دوران ان تمام حملوں کو ناکام بنا چکی ہے، جن کے منصوبے بنائے گئے تھے۔ وہ بھارت کے ہمسايے پاکستان پر الزام لگاتے ہيں، جس کی سرزمين پر ممبئی حملوں کے منصوبے بنائے گئے تھے۔ بھارت ميں ايک بڑی تعداد ميں لوگ اس الزام تراشی ميں ان کا ساتھ دے رہے ہيں۔ چتر ويدی نے کہا:’’افسوس کی بات ہے کہ ہميں پاکستان کی طرف سے کوئی مدد نہيں ملی ہے اور نہ ہی تعاون کی کوئی پيشکش۔پاکستان ہميشہ کی عادت کی طرح سے اس بار بھی حقائق کو اپنی پسند کے مطابق توڑ مروڑ رہا ہے۔‘‘
تاہم سلامتی کے امور کے ماہر اودئے بھسکار کسی کو قصور وار ٹہرانے کے حق ميں نہيں ہيں۔ان کا کہنا ہے کہ خطرے پر ردعمل اور اس کے مقابلے کے صحيح طريقوں پر سياسی جماعتوں کے درميان نا اتفاقی کو ختم ہو جانا چاہئے کيونکہ يہ جماعتيں پارليمنٹ ميں بھارتی عوام کے خيالات اور اميدوں کی نمائندگی کرتی ہيں اور قومی سلامتی کو لاحق ہونے والے اس قسم کے خطرے کی صورت ميں انہیں آپس میں اتحاد رکھنا چاہئے۔
’’جمہوريت ميں صرف عوامی رائے اور پارليمانی کام ہی سے طاقت بڑھتی ہے اور مستقبل کے لئے ضروری نقوش سامنے آتے ہيں۔ جب داخلی سلامتی جيسا مسئلہ درپيش ہو تو پارليمنٹ ميں کئی ہفتوں تک چوبيس گھنٹے بحث ہونا چاہئے۔ صرف اسی طرح پورے سياسی نظام کی رہنمائی ہو سکتی ہے۔‘‘
ممبئی حملوں کے ايک سال بعد بھارتی معاشرہ بٹا ہوا ہے۔ خوف اور اميد، اجتماعی قوت يا انفرادی کمزوری، حملوں کو بھلا دينا يا ان پر غوروفکر، پاکستان سے بات چيت يا اس کے ساتھ محاذآرائی، ان سب پر اختلاف رائے پايا جاتا ہے۔ تاہم اس الجھاؤ کو حل کرنا لازمی ہے۔
رپورٹ : پريا ايسل بورن، ترجمہ : شہاب احمد صديقی
ادارت عاطف توقیر