موبائل فون ڈیٹا تک پولیس کی رسائی: مقدمہ سپریم کورٹ میں
5 جون 2017امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے پیر پانچ مئی کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یہ ’بڑا‘ مقدمہ آج کی ڈیجیٹل دنیا میں صارفین کے پرائیویسی حقوق سے متعلق ہے اور اس بارے میں امریکی سپریم کورٹ نے پیر کے روز یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت کرے گی۔
اس مقدمے میں عدالت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ عام صارفین سے متعلق وہ معلومات، جو موبائل فون کمپنیوں کے ریکارڈ میں ہوتی ہیں، آیا ان تک رسائی سے پہلے پولیس کو ’گھر کی تلاشی‘ کی مثال اور پرائیویسی حقوق کی بنیاد پر کوئی وارنٹ بھی حاصل کرنے چاہییں یا نہیں۔
واشنگٹن میں سپریم کورٹ نے اپنا یہ فیصلہ ایک ایسے شخص کی اپیل پر کیا، جسے 2011ء میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس امریکی شہری کی گرفتاری اس کے حراست میں لیے جانے سے چند ماہ قبل ڈیٹرائٹ کے شہر میں چند بڑی موبائل فون کمپنیوں کے سٹوروں پر ڈالے جانے والے مسلح ڈاکوں کے سلسلے میں عمل میں آئی تھی۔
اس امریکی شہری کا نام ٹموتھی کارپینٹر ہے اور تب اس کی گرفتاری کے عمل میں پولیس نے اس کی موبائل فون کمپنی کی طرف سے محفوظ کردہ معلومات سے اس پہلو سے مدد لی تھی کہ اس کے فون کے جی پی ایس ریکارڈ کے مطابق تب یہ ملزم اسی علاقے میں موجود تھا یا نہیں۔
روئٹرز کے مطابق اس مقدمے کا تعلق امریکی آئین میں چوتھی ترمیم سے ہے، جس کے تحت ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں ’نامناسب‘ تلاشیوں، چھاپوں اور بے جا طور پر حراست میں لیے جانے سے محفوظ رہے۔
اسی لیے امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کو اس تاریخی مقدمے میں اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اگر پولیس کسی صارف کے بارے میں اس کی موبائل فون کمپنی سے اس سے متعلق ذاتی معلومات حاصل کرتی ہے، تو کیا اس کارروائی کے لیے پہلے وارنٹ حاصل کرنا ضروری ہے اور آیا ایسا نہ کرنے سے کسی شہری کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
ٹموتھی کارپینٹر کے خلاف کارروائی میں پولیس نے متعلقہ ٹیلی کوم کمپنی سے ان موبائل کمیونیکیشن ٹاورز کا ریکارڈ حاصل کر لیا تھا، جن کے ذریعے ایک خاص علاقے سے گزرتے ہوئے ملزم کے موبائل فون نے سنگل وصول کیے تھے۔
اس مقدمے میں ایک ریاستی اپیل کورٹ ٹموتھی کارپینٹر کے خلاف پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ اس کے موبائل فون سے متعلق ڈیٹا کے حصول کے لیے پولیس اہلکاروں کے لیے کوئی قبل از وقت وارنٹ حال کرنا ضروری نہیں تھا۔ تاہم اس بارے میں حتمی عدالتی فیصلہ اب امریکی سپریم کورٹ کرے گی۔