مودی کے بیان نے پاکستان میں ہلچل مچا دی
15 اگست 2016پیر کے روز پاکستان کے ذرائع ابلاغ نے مودی کے اِس بیان پر سارا دن بحث کی اور اِس کے ساتھ ساتھ میڈیا نے اپنی توجہ پاکستان اور اِس کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منائے جانے کے سلسلے میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں پر بھی مرکوز رکھی۔
پاکستان کے دفترخارجہ نے ابھی تک اِس بیان پر کسی ردِ عمل کا اظہار نہیں کیا تاہم وہاں سے جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز کے مطابق پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے بھارتی ہائی کمشنر کو اپنے ہم منصب کے لیے ایک خط دیا ہے، جس میں بھارتی سیکرٹری خارجہ کو مسئلہ کشمیر پر بات چیت کی دعوت دی گئی ہے۔
مودی کے اس بیان کو صرف ایک حلقے کی طرف سے پذیرائی ملی اور وہ ہے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ہمدردی رکھنے والا حلقہ۔ اس بیان پر ردِ عمل دیتے ہوئے دی وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنما قدیر بلوچ، جنہیں ماما قدیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بلوچستان کے لوگ مودی کےِ اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں اور اُس نے ایسی کونسی غلط بات کہہ دی ہے۔ کیا بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں؟ کل بھی تین مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ اس مہینے میں اٹھائیس افراد ہلاک کیے جا چکے ہیں۔ ہمارے لوگ غائب ہیں۔ ہماری قوم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور کوئی ظالموں سے حساب لینے کے لیے تیار نہیں۔ میڈیا نے ایجنسیوں کے کہنے پر میرے بیانات کا بھی بائیکاٹ کیا ہوا ہے ۔ میں تو ایک پُر امن جدوجہد کر رہا ہوں لیکن میرے ساتھ بھی اُن کا یہ رویہ ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’بھارت ہمارا ہمددر ہے اور وہ بلوچستان سے اظہارِ یکجہتی کر رہا ہے، جس کا سارے بلوچ خیر مقدم کرتے ہیں۔ رہی بات پاکستان کی تو یہاں اگر کسی کو کھانسی بھی آ جائے تو اِس کا الزام ’را‘ پر ڈال دیا جاتا ہے۔ حال ہی میں کوئٹہ میں دھماکا ہوا اور اِس کا الزام بھی ’را‘ پر ڈال دیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ ثبوت کہاں ہیں۔ میں جب ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے ملک سے باہر جا رہا تھا تو ایجنسیوں نے کہا کہ میں ’را‘ کا ایجنٹ ہوں لیکن جب ان سے ثبوت مانگے گئے تو وہ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ تو یہاں الزام لگانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔‘‘
بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے کہا، ’’بھارت کے وزیرِ اعظم مودی نے اس طرح کے بیان کو جاری کرنے کے لیے بہت اہم موقعے کا انتخاب کیا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی ’را‘ اور افغانستان کی جاسوسی ایجنسی پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی مدد کر رہی ہیں اور پاکستان کے یہ دشمن اپنے حملوں میں نہتے و معصوم عوام کو نشانہ بناتے ہیں۔ ‘‘
انہوں نے اس تاثر کو ردّ کیا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں:’’ہم صرف اُن غیر ریاستی عناصر کے خلاف لڑ رہے ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔ یہ دہشت گرد ہماری فورسز اور عوام پر حملہ کرتے ہیں اور جب یہ فورسز کے ساتھ لڑائی میں مارے جاتے ہیں تو بھارت جیسے ہمارے دشمن یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ ہماری حکومت ایسے غیر ملکی دشمنوں کے لیے کام کرنے والے دہشت گردوں کو نشانہ بناتی رہے گی۔ مودی کے بیان کا مقصد یہ ہے کہِ ان جیسے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اُنہیں یہ بتایا جائے کہ نئی دہلی ان کے ساتھ ہے لیکن ہم اِن دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔‘‘
وزیرِ اعظم نواز شریف کے ترجمان مصدق ملک نے ڈی ڈبلیو کو اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا، ’’اس طرح کے بیانات سے کشمیر میں ہونے والی نا انصافی سے عالمی برادری کی توجہ ہٹائی نہیں جا سکتی۔ پاکستان طاقت کے بے دریغ استعمال کے بغیر ہر طرح کی انتہا پسند قوتوں کو ختم کرنے کے راستے پر گامزن ہے۔خطے میں استحکام سب کے مفاد میں ہے۔ انتہا پسندوں و دہشت گردوں کی حمایت یا اُن کی حمایت میں پیغامات خطے کے لیے اچھے نہیں ہیں۔ پاکستان اندرونی و بیرونی سازشوں سے اپنا دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘
سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان عطا اللہ مینگل نے بہت تلخ لہجے میں کہا، ’’مودی بکواس کرتا ہے کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں وہاں ہوتی ہیں، جہاں انسان بستے ہیں۔ آپ مجھے بتائیں کہ کیا بلوچستان میں انسان بستے ہیں، جو وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوں گی۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اس بیان سے پہلے بھی بلوچوں پر الزام لگایا جا رہا تھا کہ انہیں بھارت کی مدد حاصل ہے۔اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ آ بیل مجھے مار۔ لیکن میرے خیال میں بلوچستان میں بھارت بلوچ علیحدگی پسندوں کی کوئی مدد نہیں کر رہا۔ پاکستان تو کھلے عام کہتا ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور وہ اُن کی حمایت بھی کرتا ہے۔ کیا بھارت نے کبھی بلوچستان کو اپنا حصہ کہا یا آزاد بلوچستان کی حمایت کی۔ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور اُن کی دشمنی کی وجہ سے یہاں بلوچ مارے جا رہے ہیں اور وہاں کشمیری مارے جا رہے ہیں۔ کوئی کسی کی مدد نہیں کر رہا، بس دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کا گیم کھیل رہے ہیں۔‘‘