مکڑیوں کا تیار کردہ ریشم، ادویات اور کاسمیٹکس میں ممکنہ استعمال
23 جولائی 2014مکڑیاں دھاگوں کی طرح کے ریشم کے ایسے انتہائی باریک تار بنانے کی ماہر ہوتی ہیں، جو مخصوص حالات میں فولاد سے بھی چار گنا زیادہ مضبوط اور طاقتور ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مکڑیاں عام طور پر جو جالے بنتی ہیں، وہ فولاد سے تین گنا سے بھی زیادہ لچکدار ہوتے ہیں۔ یہی نہیں مکڑی کے جالوں میں گرمی، پھپھوندی اور بیکٹیریا کا مقابلہ کرنے کے لیے خاص طرح کی مدافعت بھی پائی جاتی ہے۔
بہت سے طبی ماہرین مکڑیوں کے تیار کردہ اس ریشم سے بہت سی امیدیں وابستہ کرنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی جسم ایسے ریشم کو بہت آسانی سے برداشت کر سکتا ہے۔ ماضی میں مکڑیوں کے جالوں کو زخموں سے خون چوسنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ آج سائنسدان اور کاروباری ادارے مختلف ملکوں میں اس بارے میں تجربات کر رہے ہیں کہ مکڑیوں سے ریشم کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے یا اسے مصنوعی طور پر کیسے تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس شعبے میں جرمن شہر میونخ کے نواح میں قائم ایک کمپنی ایم سلک AMSilk بھی کافی زیادہ کام کر رہی ہے۔
گزشتہ برس اس ادارے نے پہلی مرتبہ ایک ایسا فائبر متعارف کرایا تھا جو مکڑیوں کے تیار کردہ ریشم کی طرح مکینیکل خصوصیات کا حامل تھا۔ ایم سلک کے ایک اعلیٰ عہدیدار ماتھیاس ووکر Mathias Woker کے بقول یہ کام عرصے تک ناممکن سمجھا جاتا تھا لیکن ان کے ادارے نے ایسا کر دکھایا۔ ووکر کے مطابق مکڑیوں سے براہ راست ریشم کے دھاگے یا ریشے حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مکڑیوں کی کسی خاص قسم کو ایک ریوڑ کی شکل میں ریشم کے حصول کے لیے کسی پنجرے میں بند رکھنا بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی دن کے اختتام پر پنجرے میں صرف ایک ہی مکڑی زندہ بچے گی۔
جرمن شہر ہینوور کے میڈیکل اسکول میں ایسی مکڑیوں سے روزانہ بنیادوں پر ریشم حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہینوور کے اس میڈیکل اسکول کی تجرباتی پلاسٹک سرجری کی لیبارٹری کی سربرہ کرسٹین رائمرز کہتی ہیں کہ ان کی تجربہ گاہ میں ایک خاص طریقے سے مکڑیوں کو یہ نفسیاتی احساس دلایا جاتا ہے کہ جیسے وہ گرنے کے عمل سے گزر رہی ہیں اس طرح اپنے بچاؤ کے لیے کسی چیز کو پکڑنے کی خاطر مکڑیاں زیادہ سے زیادہ لعاب خارج کرتی ہیں اور ریشم کے زیادہ دھاگے تیار کرتی ہیں۔
ہینوور میڈیکل اسکول کےماہرین کے بقول ہر بار ہر مکڑی سے قریب سو دو میٹر طویل ریشمی دھاگا حاصل کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق ریشمی ریشے کی یہ پیداوار ہر بار اوسطاﹰ پانچ سو میٹر فی مکڑی تک بڑھائی جا سکتی ہے لیکن ان کے ادارے کے ماہرین ایسا نہیں کرتے۔ اس لیے کہ یہ عمل مکڑیوں کے لیے بہت محنت طلب ہوتا ہے اور وہ اوسطاﹰ دس منٹ بعد بے چین ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
طبی ماہرین کو امید ہے کہ وہ مستقبل میں حادثات یا رسولیوں کے آپریشن کے نتیجے میں متاثرہ اعصاب والے مریضوں کے علاج کے لیے مکڑیوں سے حاصل کردہ ریشم استعمال کر سکیں گے۔ کرسٹین رائمرز کے مطابق اس کے لیے کلینیکل ٹیسٹنگ سے پہلے کے تجربات کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔