مگر مچھ ( دی کروکوڈائلز): عرب اسپرنگ کے تناظر میں نیا ناول
16 جولائی 2015مصری ادیب یوسف راخا عرب ممالک کے علاوہ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں میں بھی جانے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کا پہلا ناول’ سلطان کی مہر کی کہانی‘ تھا۔ وہ سات مختلف کتابوں کے مصنف ہیں۔ اُن کے نئے ناول مگرمچھ یا دی کروکوڈائلز کا انگریزی میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ اِس ناول میں یوسف راخا نے سن 1997 سے مصری معاشرے میں پکنے والے مزاحمتی لاوے کے لٹریچر اور سیاست کے ساتھ تعلق کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اِس ناول کے کردار شعراء کی قائم کردہ ایک خفیہ تنظیم ہے، جو سن 1997 میں قائم ہوتی ہے۔ مصنف نے اُن شعراء کی نظر سے اٹھنے والی تحریک کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
ناول ’مگر مچھ (دی کروکوڈائلز) میں خیالی کرداروں کی مزاحمتی سرگرمیوں کے پہلو میں حقیقت نگاری کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ حُسنی مبارک کے دور کے مختلف سیاسی واقعات، جو انجام کار عوامی انقلاب اور ایک ڈکٹیٹر کے زوال کا سبب بنے، اِن کو مہارت کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ یوسف راخا کا کہنا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں شاعر کو ایک حساس ذہن کا حامل خیال کیا جاتا ہے اور بحثیت ایک شاعر کے، اسی تجربے کا سہارا لیتے ہوئے مختلف اہم واقعات کو ناول کا حصہ بنایا ہے۔ راخا کا خیال ہے کہ مصر میں اِن برسوں میں ادیبوں کی زندگی میں سیاسی رویے سرایت کر گئے تھے اور اسی باعث وہ سرگرمی سے سیاسی زندگی کا حصے بنتے چلے گئے۔ یہ امر اہم ہے کہ ناول ’’مگر مچھ‘‘ کے کئی حصے بظاہر نثری ہیں لیکن شعروں جیسے معلوم ہوتے ہیں۔
ناول ’’مگر مچھ‘‘ کا منظر نامہ مصری دارالحکومت قاہرہ کا مرکزی اور مشہور التحریر چوک ہے۔ اِسی التحریر چوک میں سابق ڈکٹیٹر کے خلاف سیاسی بیداری کی تحریک نے جنم لیا اور پھر اتنا زور پکڑا کہ انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا۔ اِس تحریکی دور کی شدت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ناول کا مرکزی کردار اپنے ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک خفیہ شاعری کی تنظیم قائم کرتے ہیں۔ ناول کی کہانی میں جہاں قاہرہ کے رومانی ماحول کی شدت کو بیان کیا گیا ہے وہاں سیاسی اشتعال انگیزی کو اِس ناول میں سمونے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ناول میں قاہرہ کے تیس مضبوط ثقافتی برسوں کو التحریر سے اٹھنے والی تحریک کے مشتعل ہجوم کی لپیٹ میں آ کر بکھر جانے کو بھی مصنف نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
بظاہر عرب اسرپنگ کا جنم تیونس میں ہوا تھا لیکن بعد میں یہ تحریک مصر، لیبیا اور شام میں بھی پھیلی۔ اب دانشور حلقے عرب اسپرنگ کو ایک ناکام تحریک قرار دیتے ہیں۔ جب عرب اسپرنگ کی ناکامی کا ذکر یوسف راخا سے کیا گیا تو وہ کہنے لگے کہ عرب اسپرنگ کی تحریک میں بنیادی نکتہ ظلم اور جبر کا نظام نہیں تھا بلکہ سیاسی حکومتوں اور بہتر حکومت سازی کا تھا۔ اسی باعث مظاہرین حکومتوں کے زوال پر اکتفا کر کے بیٹھ گئے۔ راخا نے افسوس سے کہا کہ بدقسمتی سے تحریک کی شدت صرف ظلم اور جبر کے نظام پر قائم حکومت رہی اور معاشرتی مسائل کے خاتمے کو اہمیت حاصل نہ ہو سکی۔