مہاجرین سے متعلق ڈیل: جرمن چانسلر کل پھر ترکی جائیں گی
22 اپریل 2016یورپی یونین اور ترکی کے مابین مہاجرین کا بحران حل کرنے کے لیے معاہدہ تین ہفتے قبل طے پایا تھا۔ معاہدے پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد غیر قانونی طور پر ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ تاہم بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق اب بھی روزانہ پناہ گزینوں کی قریب ڈیڑھ سو کشتیاں بحیرہ ایجیئن کے راستے یونان کی جانب آ رہی ہیں۔
یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے
جرمنی نے اس سال اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کل شامی سرحد کے قریب ترکی کے تاریخی شہر غازی انتیپ پہنچ رہے ہیں۔ اس دورے کے دوران یورپی رہنما ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو سے ملاقات کرنے کے علاوہ مہاجرین کے ایک کیمپ بھی جائیں گے۔
یورپی یونین اور ترکی کے مابین معاہدے کو کامیاب بنانے سے جرمنی اور ترکی دونوں ہی ممالک کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ میرکل نے یونین کے دیگر ممالک کو اس ڈیل کا قائل کرنے کے لیے کافی کوششیں کی تھیں اور اب انہیں اسے کامیاب بنانے کے لیے سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔
یہ معاہدہ انقرہ کے لیے بھی آسان نہیں تھا کیوں کہ اس کے مطابق ترکی کے ذریعے یونان جانے والے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ ترکی میں پہلے ہی شام اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ملکوں سے آئے لاکھوں مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔
داؤد اولُو نے پناہ گزینوں کی واپسی کے عوض ترک شہریوں کے یورپ میں بغیر ویزا سفر جیسا فائدہ اپنے عوام کے سامنے رکھا تھا۔ تاہم معاہدے کی اس شق پر عمل درآمد رواں برس جون سے پہلے نہیں ہو پائے گا۔
ترک وزیر اعظم اور صدر دونوں کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آ چکے ہیں جن میں انہوں نے بڑے واضح انداز میں یورپ کو پیغام دیا ہے کہ اگر یونین نے معاہدے میں ترکی سے کیے گئے وعدے پورے نہ کیے تو ترکی بھی اس ڈیل پر عمل درآمد روک دے گا۔ اس کے جواب میں یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر کا کہنا تھا کہ ترک شہریوں کو یورپی یونین میں ویزے کے بغیر سفر کی اجازت صرف اسی صورت میں دی جائے گی اگر ترکی معاہدے میں طے کردہ تمام 72 شرائط پر عمل درآمد یقینی بنائے اور اس عمل میں کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی۔
دوسری جانب ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے میرکل کو ایک اور مشکل میں بھی ڈال رکھا ہے۔ ایردوآن کا مطالبہ ہے کہ میرکل ان کے خلاف ایک ٹیلی وژن پروگرام میں ایک طنزیہ نظم پڑھنے والے جرمن کامیڈین کے خلاف قانونی کارروائی کو یقینی بنائیں۔ میرکل کی جانب سے استغاثہ کو اس کامیڈین کے خلاف کیس کی پیروی کرنے کی اجازت دینے پر جرمنی میں شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ ایک اعلیٰ جرمن اہلکار کا کہنا ہے کہ معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے ’احمد داؤد اولُو جتنی کوشش کرتے ہیں، اتنی ہی ایردوآن ہماری برداشت آزمانے لگتے ہیں‘۔
اسی دوران ڈونلڈ ٹسک نے مختلف یورپی اخبارات میں شائع ہونے والے اپنے ایک تازہ مضمون میں لکھا ہے، ’’یورپ کو واضح حدود متعین کرنا ہوں گی کہ وہ کتنی رعایت دے سکتا ہے۔ آزادی اظہار سمیت ہماری آزادی پر کسی بھی ساتھی کے ساتھ سیاسی سودے بازی نہیں ہو سکتی۔ یہ پیغام صدر ایردوآن تک بھی پہنچنا چاہیے۔‘‘