مہاجرین کا بحران: ’جرمن کامیاب نہیں ہوں گے‘، ڈی ڈبلیو تبصرہ
31 اگست 2016’’ہم اس لیے کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ ہم حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا انسانوں کی صرف دیکھ بھال ہمارا مقصد ہے یا ہم اُنہیں سیدھا اپنے معاشرے میں ضَم کرنا چاہتے ہیں؟
کیونکہ ہم یہ جانتے ہی نہیں کہ ہم یہ کب کہہ سکیں گے کہ اب ہم کامیاب ہو گئے ہیں۔ جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے پچیس سال بعد بھی بہت سے جرمن یہ کہتے ہیں کہ درحقیقت ہمارا اتحاد ابھی نہیں ہوا۔
کیونکہ ہم اس نصب العین کو ثقافتی نہیں بلکہ صرف تکنیکی نوعیت کا سمجھ رہے ہیں، ہمیں اس فرق کو تسلیم کرنا سیکھنا ہو گا۔ الٹا ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ مہاجرین ہماری آبادی کی کمی کے مسئلے کو حل کر دیں گے۔
ہم مہاجرین کو تارکین وطن بنا رہے ہیں
ہم کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ ہم یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ تارکین وطن اُس سے کہیں زیادہ قدامت پسند اور مذہبی ہیں جتنا کہ ہمارا جرمن معاشرہ ہے۔ ہمیں یہ احساس تک نہیں کہ کسی دوسری ثقافت سے آنے والے انسانوں کو گھر جیسا ماحول دینے کے لیے کتنی تگ و دو کرنا ہو گی۔
ہمارے پاس ’مادرِ وطن‘ جیسی خوبصورت اصلاح ضرور ہے لیکن ہم تارکینِ وطن کو شاذ و نادر ہی یہ احساس دلاتے ہیں کہ زبان، ثقافت اور سیاست کے اعتبار سے یہ ’مادرِ وطن‘ اُن کا بھی ہو سکتا ہے۔
اور کیونکہ ہم تارکین وطن کو چُنتے نہیں بلکہ قبول کرتے ہیں
ہمارا تو اپنی قوم کے ساتھ تعلق بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، خود اپنے بارے میں ہماری نہ تو کوئی مثبت رائے ہے اور نہ ہی ہم ایسی کوئی رائے آگے کسی تک پہنچاتے ہیں۔
کیونکہ ہم اپنی تمام تر بیان بازیوں کے باوجود ایک ویسا رنگا رنگ جمہوری ملک بننے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں، جیسا کہ کبھی کبھی ہمارے سربراہِ مملکت کہا کرتے ہیں۔
کیونکہ انضمام پوری صدی پر پھیلا تین نسلوں کا کام ہے اور ہم نے اس چیلنج سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کیونکہ شام یا افغانستان سے آئے بہت سے مہاجرین ہمارے جدید صنعتی تقاضوں اور ہماری رفتار کا ساتھ نہیں دے پائیں گے۔
کیونکہ ہمارے پیمانوں کے مطابق بہت سے مہاجرین کافی مہارت اور علم سے عاری ہیں۔ ’ہم کامیاب ہوں گے‘، یہ جملہ صرف یہی بتاتا ہے کہ انسان اچھی امید رکھتا ہے جبکہ اچھی امید نہیں بلکہ خوف جرمنوں کی خصوصیت بن چکا ہے۔
کیونکہ ہم ایک نہ ایک دن یہ کہیں گے کہ ہم نے کامیاب ہو جانا تھا، خواہ ہم کامیاب نہیں بھی ہوئے ہوں گے۔‘‘