مہاجرین کے بحران کا مقابلہ مل کر، جنوبی یورپی ممالک کا اصرار
11 جنوری 2018خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنوبی یورپ کے سات ممالک کے رہنماؤں نے زور دیا ہے کہ یورپ میں مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ بدھ دس جنوری کی شام روم میں اپنی ایک ملاقات میں ان رہنماؤں نے مہاجرین کے بحران کے علاوہ کئی دیگر اہم معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
روم میں سات یورپی ممالک کے سربراہان کی ملاقات، ایجنڈا مہاجرت
2017 میں کتنے پاکستانی شہریوں کو جرمنی میں پناہ ملی؟
یورپی یونین: سیاسی پناہ کی درخواستوں میں حیران کن کمی
قبرص، فرانس، یونان، اٹلی، مالٹا، پرتگال اور اسپین کے رہنماؤں کی اس ملاقات میں یورو زون کے مستقبل، پائیدار ترقی، بے روزگاری کی شرح میں کمی کی کوشش اور سرمایہ کاری میں بہتری کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔ اس ملاقات کا مقصد رواں برس یورپی یونین کی سمٹ سے قبل ایک متقفہ حکمت عملی تیار کرنا تھا۔ اس ملاقات کے بعد تمام رہنماؤں نے متفقہ طور پر کہا کہ یورپی یونین کے مستقبل کی حکمت عملی بناتے ہوئے عوامی امنگوں کا احترام کیا جائے۔
اس میٹنگ کے بعد یونانی وزیر اعظم الیکسس سپراس نے روم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کے بحران کے حل کی خاطر ایک ایسی متقفہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے چاہیے، جو تمام رکن ممالک کے لیے قابل قبول ہو۔ اس تناظر میں انہوں نے یورپی یونین کی مہاجرین سے متعلق پالیسی کو اہم قرار دیا اور کہا کہ تمام رکن ممالک میں ان مہاجرین کا بوجھ برابر طور پر تقیسم کیا جانا چاہیے۔
اس موقع پر فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ڈبلن معاہدے کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا، جس کے تحت یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ جو تارک وطن یورپی یونین کے رکن جس ملک میں پہلے داخل ہوتا ہے، اسے وہیں پناہ دی جائے۔ ماکروں نے کہا کہ اس قانون کہ وجہ سے کچھ ممالک پر زیادہ بوجھ پڑ رہا ہے۔ یورپ آنے کی کوشش کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کا پہلا ٹھکانہ یونان یا اٹلی ہی ہوتے ہیں، جہاں سے پھر وہ دیگر یورپی ممالک میں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ برس ایک لاکھ انیس ہزار افراد مہاجرت کرتے ہوئے اٹلی پہنچے تھے۔ تاہم سن دو ہزار سولہ کے مقابلے میں یہ تعداد 35 فیصد کم تھی۔ اس تناظر میں اطالوی وزیر اعظم نے زور دیا کہ یورپی یونین کو مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر زیادہ بہتر اقدامات کرنا چاہییں۔
اسی طرح ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے نتیجے میں ترکی سے یونان آنے والے مہاجرین کی تعداد میں بھی نمایاں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ گزشتہ برس ان راستوں سے یونان پہنچنے والے افراد کی تعداد اٹھائیس ہزار بتائی گئی ہے، جو سن دو ہزار سولہ کے مقابلے میں چھ گنا کم ہے۔ تاہم اس کے باوجود یونان میں ابھی تک پچاس ہزار سے زائد مہاجرین موجود ہیں، جن میں سے چودہ ہزار بحیرہ ایجیئن کے چھوٹے چھوٹے یونانی جزائر پر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔